*قرآن کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا شغف*
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
قرآن ایک زندہ وتابندہ کتاب ہے ،دنیا وآخرت کیلئے بہترین رہنما ہے،زندگی کے راز سے پردہ اٹھاتا ہے،اور انسان کو اس کے حقیقی وجود سے آشنا کر تا ہے ،سسکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کیلئے زندگی کا پیغام ہے،خوارگی اور درماندگی، مصیبت ومشکلات ،رنج و الم اور فکر وغم سے نجات کیلئے نسخہ شفا ہے ۔جنھوں نے اسے تھاما اور اس کے مطابق زندگی گزاری وہ دنیا میں بھی سر بلند ہو ئے اور آخرت کی جیت بھی یقینی ہے فمن تبع ھدای فلا یضل ولا یشقی (سورہ طٰہٰ:123)اور جس نے اس سے منھ موڑا وہ ہر جگہ ناکام ونامراد ہوا ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا (سورہ طٰہٰ:124)وہ دنیا کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں آفتاب عالمتاب بن کر طلوع ہوا اور جانور سے بد تر زندگی گزارنے والوں کیلئے انسانیت کا پیام لے کر آیا انھوں نے اسے پڑھا ،سنا ،سمجھا اور خون کی طرح ان کی زندگیوں میں رواں دواں ہو گیاان کی پاگیزگی ،حسن عمل اور وفا داری کی داد خود پر وردگار نے دی:
السابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضو عنہ واعد لھم جنٰت تجری تحتھا الانھٰر خالدین فیھا ابداً ذالک الفوز العظیم(سورہ توبہ:100)
وہ لوگ جو شروع ہی میں ایمان کی طرف سبقت کر نے والے ہیں مہاجرین وانصار اور وہ لوگ جنھوں نے اچھے طریقہ پر ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو ئے اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے.
ان کی راتیں اللہ کی کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے میں گزرتیں اور دن میں اس کے نفاذ کیلئے کوشاں رہتے ہیں خود رب کائنات نے ان کے متعلق گواہی دی ہے:
انما یومن بآیاتنا الذین اذا ذکرو بھا خروا سجداً وسبحوا بحمد ربھم وھم لا یستکبرونo تتجافیٰ جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا وطمعا ومما رزقنا ھم ینفقون oفلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون(سورہ السجدہ:15-16-17)
ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں جنھیں جب کبھی ان کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاگیزگی بیان کر تے ہیں اور تکبر نہیں کر تے ان کے پہلو خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کر تے ہیں ہم نے ان کے عمل کے بد لے میں آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی جو چیزیں چھپا کر رکھی ہیں انھیں کوئی نہیں جان سکتا۔
حضرت علیؓ نے صحابہ کرام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا واللہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہے میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی بھی ان کی طرح نہیں ہے ان کی صبح اس حال میں ہو تی تھی کہ ان کے بال پراگندہ اور غبار آلود ہو تے اور چہرے پہ زردی چھائی ہو تی ، انکی پیشانی پر بکری کے گھٹنے کی طرح سجدے کا نشان ہو تا ان کی رات اس حال میں گزرتی کہ اللہ کی کتاب کی تلاوت کر رہے ہیں کبھی قیام کی حالت میں ہیں اور کبھی سجدے میں گرے ہو ئے ہیں جب صبح ہو تی اور اللہ کا ذکر کرتے تو اس طرح لرزنے لگتے جیسے کہ تیز ہوا میں درخت ہلتے ہیں اورآنکھوں سے آنسو اسطرح مسلسل بہتے کہ کپڑے تر ہو جاتے(البدایۃ والنھایۃ:7/8)
وہ اپنے ساتھیوں کو یاد کر کے اشکبار ہو جاتے اور فرماتے:
دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے شیدائیوں کیلئے خوشخبری ہے یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے زمین کو بچھونا اور اس کی مٹی کو فرش اور پانی کو لذت آفریں سمجھا اور قرآن ودعا کو اپنا داخلی اور خارجی لباس بنا لیا ہاں ان کے چلے جانے پر دنیا روپڑی اور ان کی آمد پر آخرت مسکرا اٹھی یہ قرآن اور تہجد میں مشغول رہے ان سب سے اللہ راضی ہو جائے(حلیۃ الاولیا:53/2:رہبان اللیل312/2)
حضرت حسن بصری نے اپنے زمانے کے لوگوں اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا فرق ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
انکم اتخذتم قرأۃ القرآن مراحل وجعلتم اللیل جملاً فانتم ترکبونہ فتقطعون بہ مراحلہ وان من کان قبلکم رأوہ رسائل من ربھم فکانوا یتدبرونھا باللیل وینفذونھا بالنھار(احیاء علوم الدین324/1)
تم لوگوں نے تلاوت قرآن کو منزل سمجھ رکھا ہے اور رات کو اس منزل تک پہنچنے کیلئے سواری کا جانور بنا رکھا ہے تم اس سواری پر سوار ہو کر منزل پر پہنچتے ہو اور جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اسے اپنے رب کی طرف سے آیا ہوا پیام اور خط سمجھتے تھے اور رات میں اس پر غور وفکر کرتے اور دن میں اس پر نفاذ کیلئے کوشاں رہتے.
اپنے تو اپنے دشمن بھی ان کے متعلق یہی گواہی دیتے تھے چنانچہ امام طبری نے نقل کیا ہے کہ جنگ یرموک کے موقع پر ایک کافرجاسوس خبر لینے کے لئے مسلمانوں کے لشکر میں آیا. واپسی پر ان کے تعلق سے اس نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا:
باللیل رھبان وبالنھار فرسان ۔
یہ لوگ رات میں عبادت گزار اور دن میں شہ سوار ہیں۔ صحابہ کرام نے کتاب الٰہی سے محبت کی جیسا کہ اس کی محبت کا حق ہے انھوں نے اسے شوق کے ہاتھوں لیااور ذوق کی نگاہوں سے پڑھااور دل کے آئینے میں بسایااور اس پر عمل کیا جیسا کہ عمل کر نا چاہئے جس کی وجہ سے وہ ہر میدان میں کامیاب وکامران ہو ئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے خوش ہو ئے۔
قرآن کی تلاوت:
صحابہ کرام اس حقیقت سے اچھی طرح با خبر تھے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے ۔اس پر ایمان ویقین ان کے گوشت اور پوست میں پیوست تھا۔ اس کی عظمت ورفعت ہر وقت ان کی نگاہوں کے سامنے رہتی۔ اس کے نازل کر نے والے کی ہیبت وجلال سے بھی وہ واقف تھے ۔اور اس کی محبت وعقیدت سے سرشار بھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کی تلاوت در حقیقت اللہ سے ہم کلامی کے شرف کا حصول ہے؛ اس لئے قرآن کی تلاوت کو انھوں نے حرز جان بنا لیا تھایہ عمل ان کے لئے محبوب ترین اور دلچسپ مشغلہ تھا وہ تعب وتھکن سے آشنا ہو ئے بغیر قرآن کی تلاوت کر تے تھے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے جو کبھی یہودی یا نصرانی تھے ان کی خاص صفت یہ ذکر کی ہے:
من اہل اللکتاب امۃ قائمۃ یتلون آیات اللہ آناء اللیل وہم یسجدون (آل عمران:113)
اہل کتاب میں ایک جماعت سیدھی راہ پر ہے وہ اللہ کی آیتوں کو رات میں پڑھتے ہیں اور سجدہ کر تے ہیں.
اہل کتاب صحابہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کی بھی یہی حالت تھی کہ قرآن کی چاشنی انھیں نرم بستر اور میٹھی نیند سے زیادہ پسند تھی اور ان کی راتیں اللہ کی یاد اور قرآن کی تلاوت سے آباد رہا کر تی تھیں اور دن قرآن سیکھنے ،سکھانے اور اس پر عمل کر نے میں گزرتا یقینی طور پر یہی لوگ اس آیت قرآنی کے اولین مصداق ہیں :
ان الذین یتلون کتاب اللہ واقاموا الصلوٰۃ وانفقوا مما رزقناھم سراً وعلانیۃ یرجون تجارۃ لن تبور لیوفیھم اجورہم ویزیدھم من فضلہ انہ غفور شکور(فاطر: 29-30)
جو لوگ اللہ کی کتاب کو پڑھتے ہیں اور نماز قائم کر تے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کر تے ہیں وہ امیدوار ہیں ایسی تجارت کے جس میں کو ئی نقصان نہ ہو تاکہ اللہ انھیں اس کا پورا پورا بدلہ عنایت کرے اور اپنے فضل سے اس میں اضافہ کر دے بلا شبہ اللہ تعالیٰ بخشنے والے قدر دانی کر نے والے ہیں۔
قرآن پاک کی تلاوت سے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد وعمل نیز حوصلہ افزائی نے صحابہ کرام کی زندگیوں میں قرآن سے تعلق، شغف اور تلاوت کی روح پھونک دی تھی حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے:
خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونحن نقرأالقرآن وفینا الاعرابی والعجمی فقال اقرءوا فکل حسن وسیجی اقوام یقیمونہ کما یقام القدح یتعجلونہ ولا یتأجلونہ(سنن ابو داؤد :146 ۔صحیح)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم اس وقت قرآن پڑھنے میں مشغول تھے ہم میں دیہاتی بھی تھے اور غیر عربی بھی یہ دیکھ کر اللہ کے رسول نے فرمایا: پڑھتے رہو جلد ہی ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کو اس طرح سے درست پڑھیں گے جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے اور اس کے اجر کو فوراً چاہیں گے اور تاخیر کو گوارا نہ کریں گے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے گھر کے پاس نماز پڑھنے کیلئے ایک جگہ خاص کر لی تھی وہ نرم دل انسان تھے جب قرآن پڑھتے تو آنسؤوں کی جھڑی لگ جاتی (سیرت ابن ہشام374/1)
حضرت ابو قتادہ نقل کر تے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات با ہر نکلے آپ نے ابو بکر کو نماز میں آہستہ قرآن پڑھتے ہوئے پایا حضرت عمر کے پاس سے گزرے دیکھا کہ وہ بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے ہیں صبح کو دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکٹھے ہو ئے آپ نے حضرت ابو بکر ؓ سے فرمایا: میں نے تمھیں رات میں نماز کے اندر بہت آہستہ قرآن پڑھتے ہوئے پایا .انھوں نے عرض کیا: جس ہستی سے میں سر گوشی کر رہا تھا وہ تو سن رہا تھا . پھر حضرت عمر کی طرف متوجہ ہو ئے اور کہا۔ تمھاری آواز بہت بلند تھی عرض کیا: یا رسول اللہ! میں سونے والوں کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا .آپ نے فرمایا:ابو بکر !تم اپنی آواز قدرے بلند کرو اور اے عمر! تم اپنی آواز تھوڑی پست کرو(سنن ابو داؤد:228. صحیح)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب گھر آتے تومصحف کھول کر بیٹھ جاتے اور اسے پڑھتے رہتے (حیاۃ الصحابہ285/3)
ایک مرتبہ وہ پوری رات نماز میں بار بار سورہ فاتحہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی (فضائل قرآن لابی عبید/147)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے متعلق خود کہتے ہیں کہ مجھے یہ گوارا نہیں ہے کہ مجھ پر کوئی ایسا دن گزرے جس میں مجھے قرآن دیکھ کر پڑھنے کی نوبت نہ آئے نیز وہ کہتے ہیں اگر تمھارے دل پاک و صاف ہوں تو تمھیں اللہ کے کلام سے آسودگی نہ ہو گی لوطھرت قلوبکم ما شبعتم من کلام اللہ عز وجل (اخرجہ احمد بن عساکر ،حیاۃ الصاحبہ286/3)-جس مصحف کو وہ پڑھا کر تے تھے کثرت تلاوت کی وجہ سے وہ جگہ جگہ سے شکستہ ہو گیا تھا. (الاسماء والصفات للبیہقی،حیاۃ الصحابہ286/3)
بلوائیوں نے قتل کے ارادے سے گھر کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے لیکن قرآن سے شغف اور تعلق اس قدر کہ ہر خوف سے بے پرواہ تلاوت میں مشغول ہیں اور اسی حالت میں شہادت نصیب ہو تی ہیے خون کے قطروں سے قرآن کے اوراق تر ہو جاتے ہیں. (الاستیعاب)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسجد سے قرآن پڑھنے کی آواز سنی تو فرمایا:
یہ خوش قسمت لوگ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک قرآن پڑھنے والے محبوب ترین لوگوں میں سے تھے۔(طوبیٰ لھٰؤلاء کانو ااحب الناس الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔التبیان فی آداب حملۃ القرآن للنوری/92)
نیز وہ فرماتے تھے :
قرآن کیلئے تمھارا منھ گزرگاہ ہے لہذا اسے مسواک کے ذریعہ پاک وصاف رکھو۔(ان افواہکم طرق للقرآن فطیبوھا بالسواک. سنن ابن ماجہ:68.صحیح)
حضرت عبد اللہ بن مسعود پہلے شخص ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے بعد مکہ میں مشرکوں کے سامنے بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کی (سیرت ابن ھشام 314/1)قرآن پڑھنا اور پڑھانا ان کی زندگی کا اہم ترین مشغلہ تھا حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ رات کے وقت جب ساری دنیا محو خواب ہو تی ہے تو اس وقت ابن مسعود آہستہ آہستہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسی حال میں صبح ہو جاتی ہے (اسد الغابہ)اور حضرت علقمہ بن قیس کا بیان ہے کہ میں ایک شب ان کے ساتھ رہا وہ رات کے شروع میں نماز کیلئے اٹھے اور اس میں قرآن اس انداز میں پڑھ رہے تھے کہ جیسے محلہ کے مسجد کے امام کی قرأت ہو تی ہے. ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہے تھے. آواز میں اتار چڑھاؤ نہ تھا. اس میں اتنی بلندی تھی کہ قریب کے لوگ سن سکتے تھے اور پھر رات کے بالکل آخری حصہ میں وتر کی نماز ادا کی.(حلیۃ الاولیاء130/1)انھیں سے منقول ہے کہ میں ان کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا انھوں نے سورہ طٰہٰ شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے رب زدنی علما (اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما) تو اسے بار بار پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی (فضائل القرآن لابی عبید/ 146 . الاتحاف506/4)
حضرت ابو موسیٰ اشعری ایک خاص نغمگی کے ساتھ قرآن پڑھا کر تے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان کے متعلق کہا کرتے تھے:
لقد اوتی موسیٰ مزمارا من مزامیر آل داؤد۔
ابو موسیٰ کوحضرت داؤد کی بانسری جیسی خوش گلوئی ملی ہے۔
یمن کی گورنری کے زمانہ میں حضرت معاذ بن جبل نے ان سے پوچھا :
كَيْفَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ ؟ قَالَ : أَتَفَوَّقُهُ تَفَوُّقًا. قَالَ : فَكَيْفَ تَقْرَأُ أَنْتَ يَا مُعَاذُ ؟ قَالَ : أَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ، فَأَقُومُ وَقَدْ قَضَيْتُ جُزْئِي مِنَ النَّوْمِ، فَأَقْرَأُ مَا كَتَبَ اللَّهُ لِي، فَأَحْتَسِبُ نَوْمَتِي كَمَا أَحْتَسِبُ قَوْمَتِي. (صحيح بخاري:4341)
کہ آپ کس طرح قرآن پڑھتے ہیں ؟ وہ بولے میں قرآن سے چمٹا رہتا ہوں اور رات دن تھوڑے تھوڑے وقفہ سے پڑھتا رہتا ہوں ۔اور آپ کا کیا طریقہ ہے ؟حضرت معاذ نے کہا: میں رات کے شروع میں سوتا ہوں اس طرح سے میں نیند کا ایک حصہ پورا کرلیتا ہوں پھر میں اٹھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے جتنا مقدر کر رکھا نماز میں اتنا قرآن پڑھتا ہوں اور تہجد کی طرح سے میں اپنی نیند کو بھی باعث ثواب سمجھتا ہوں(صحیح بخاری)
اور ان کا پورا قبیلہ تلاوت کے سلسلہ میں مشہور تھا خود جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گواہی دی ہے :
انی لاعرف اصوات رفقۃ الاشعریین حین یدخلون باللیل واعرف منازلھم من اصواتھم بالقرآن وان کنت لم ار منازلھم حین نزلوا بالنھار (صحیح مسلم مع المنھاج:1512)
اشعری قبیلہ کے لوگ جب رات میں تلاوت کر تے ہیں تو میں ان کی آواز کو پہچان لیتاہوں اسی طرح سے رات میں ان کی تلاوت کو سن کر ا نکے قیام کی جگہ بھی مجھے معلوم ہوجاتی ہے اگر چہ دن میں ان کے قیام کی جگہ دیکھے نہ ہوتا.
نافع سے پوچھا گیا ابن عمر گھر جا کر کیا کرتے ہیں ؟ جواب دیا جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ سب کے بس کی بات نہیں ہر نماز کیلئے وضو کرتے ہیں اور دونمازوں کے درمیانی وقفہ میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں (اخرجہ ابن سعد ،حیاۃ الصحابہ286/3)
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ تک سفر میں ابن عباس کے ساتھ رہا آدھی رات کو وہ نیند سے بیدار ہو جاتے اور نماز میں قرآن کی تلاوت اس انداز سے کرتے کہ ایک ایک حرف سمجھ میں آتااور پھر روتے رہتے (فیقرأالقرآن حرفا حرفا ثم یبکی۔ مختصر قیام اللیل /131)
حضرت عبداللہ بن عمرو ان صحابہ میں سے ہیں جو کثرت تلاوت میں مشہور ہیں وہ چاہتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انھیں روزانہ ایک ختم کر نے کی اجازت دے دیں چنانچہ وہ بار گاہ نبوت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا:
یا رسول اللہ فی کم اقرء قال فی شہر قال انی اقویٰ من ذالک وتناقصہ حتیٰ قال اقرء فی سبع قال انی اقوی من ذالک قال لا یفقہ من قرءہ فی اقل من ثلاث (سنن ابی داؤد :645)
اللہ کے رسول کتنے دنوں میں پورا قرآن پڑھ سکتا ہوں؟ فرمایا: ایک مہینہ میں .عرض کیا :میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتاہوں اور اس مدت کو کم کر نے کی درخواست کی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مدت کم کرتے رہے آخر میں فرمایا: سات دن میں ختم کرو .انھوں نے کہا :مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے. فرمایا :جو شخص تین دن سے کم میں پورا قرآن پڑھ لیتاہے وہ اسے سمجھ نہیں سکتا.
حضرت عثمان ،زید بن ثابت ،ابن مسعود اور ابی بن کعب کے متعلق منقول ہے کہ وہ سات دن میں ایک قرآن مکمل کر لیا کرتے(احیاء علوم الدین325/1)
حضرت تمیم داری کے متعلق منقول ہے کہ وہ اس آیت کو پوری رات پڑھتے رہے(الاتحاف506/4)
ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلہم کالذین آمنوا وعملو ا الصالحات سواء محیاھم ومماتھم ساء ما یحکمون(سورۃ الجاثیۃ :21)
جو لوگ گناہوں کی کھیتی کاٹتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو اور نکو کار مومنین کو برابر کر دیں گے ان کا جینا مرنا ایک جیسا ہے ان کا یہ فیصلہ ایک غلط فیصلہ ہے .
حضرت عامر بن قیس نے ایک رات سورہ مومن کی تلاوت شرع کی اور جب اس آیت پر پہنچے :
وانذرھم یوم الآزفۃ اذ القلوب لدی الحناجرکاظمین (سورۃ المومن:18)
تو بار بار اس کو پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی. (الاتحاف506/4)
مدائن میں یہ خبر مشہور ہو ئی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت سلمان فارسی وہاں کی جامع مسجد میں تشریف فرما ہیں جسے بھی اطلاع ملی وہ بھاگتا ہوا مسجد آیا یہاں تک کہ آنے والوں کی تعداد ایک ہزارسے زیادہ ہو گئی حضرت سلمان فارسی نے قرآن کھول کر سورہ یوسف کی تلاوت شرع کر دی۔ یہ دیکھ کر آنے والوں نے باہر کا راستہ دیکھنا شرع کر دیا اور زیادہ تر لوگ کھسک گئے ۔سو کے قریب لوگ باقی رہ گئے یہ حالت دیکھ کر وہ شدید ناراض ہو ئے اور فرمایا :ادھر ادھر کی بات سننے کیلئے آئے تھے اور جب میں نے کتاب الٰہی کو سنانا شروع کیا تو بھاگ کھڑے ہوئے(اخرج ابو نعیم فی الحلیۃ ،حیاۃ الصحابۃ 225/3)
امام ابو داؤد نے روایت کی ہے ایک سفر سے واپسی کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں پہرہ دینے کیلئے ایک مہاجر (عمار بن یاسر) اور انصاری صحابی کو متعین کیا. مہاجر لیٹ کر آرام کر نے لگے اور انصاری نماز میں مشغول ہو گئے .کسی مشرک نے انھیں دیکھا اور ان پر تیر چلایا جو نشانہ پر لگا .انھوں نے نکال کر پھینک دیا یہاں تک کہ تین تیر انھیں لگا.
آخر میں انھوں نے اپنے ساتھی کو جگایا .انھوں نے انھیں خون میں لت پت دیکھ کرکہا کہ پہلا تیر لگتے ہی مجھے کیوں نہیں جگایا؟انھوں نے کہا میں ایک سورہ کی تلاوت میں مصروف تھا اسے بیچ سے چھوڑ دینا مجھے اچھا نہیں لگا کنت فی سورۃ اقرأھا فلم احب ان اقطعھا (سنن ابوداؤد مع عون المعبود:115)
ابن اسحاق کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
وایم اللہ لولا ان اضیع ثغراً امرنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحفظہ لقطع نفسی قبل ان اقطعھا(عون المعبود؍116)
’’اللہ کی قسم اگر یہ خطرہ نہ ہو تا کہ میری موت کی وجہ سے آنحضرت نے پہرہ داری کی جو خدمت میرے سپرد کی تھی اس میں کوتاہی ہوگی تو میں مرجانا گوارا کرلیتالیکن اس سورہ کو درمیان میں نہ چھوڑتا۔
عقل ششدر و حیران ہے کہ یہ کیسی محبت تھی ؟ وہ کون سا جذبہ تھا؟ و ہ کیسا ذوق و شوق تھا کہ تیر پر تیر کھائے جارہے ہیں، جسم خون سے تر بتر ہواجارہاہے، روح پر واز کرجانے کا خطرہ ہے ، لیکن جسم میں کوئی حرکت نہیں کہ یہ رب ذوالجلال کی بار گاہ کی عظمت کے خلاف ہے ۔تلاوت قرآن کی وہ کونسی لذت انھیں حاصل تھی ؟ وہ کیسی مٹھاس تھی جس سے ہمارے کام و دہن نا آشنا ہیں کہ جان دینا گوارا ہے لیکن اس لذت سے محرومی برداشت نہیں۔
بعض روایتوں میں وضاحت ہے کہ انصاری صحابی حضرت عباد بن بشر تھے جن کے متعلق یہ بھی منقول ہے کہ ایک رات آنحضرت ﷺ نے ان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنی، آپ نے دریافت کیا: عائشہ!کیا یہ عباد بن بشر کی آواز ہے ؟ انھوں نے کہا : ہاں۔ فرمایا اللہ ان کی مغفرت کرے۔اللہم اغفر لہ (الاصابہ 496/3)
صحابہ کرام کو قرآن سے اس درجہ محبت تھی کہ وہ اس میں مشغول ہوکر ہر چیز کو بھول جاتے تھے ، جب قرآن کی آیات ان کے سامنے آتیں تو دنیا کی محبوب ترین چیزیں بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کے ساتھ شغف اور فنائیت کی جو مثال انھوں نے پیش کی ہے اس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔
حضرت ابوریحانہ ایک غزوہ سے واپس ہوئے، رات کا کھانا کھایا، وضو کیااور نماز کے لیے مسجد گئے اور پھر نماز میں جو تلاوت شروع کی تو پوری رات گذرگئی ، فجر کی نماز پڑھ کر گھر آئے، بیوی نے کہا آپ ایک عرصہ تک جہاد میں رہے ، پھر گھر واپس آئے، کیا ہمارا کوئی حق نہیں ہے؟ فرمایا ضرور ہے لیکن اس وقت ہے جب تم مجھے یاد رہتیں، بیوی نے پوچھا ایسی کون سی چیز پیش آگئی جس کی وجہ سے آپ مجھے بھی بھول گئے؟ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جنت کی جو لذتیں اور خوبیاں بیان کی ہیں، میں ان میں غور کرتارہا اور ان کے متعلق سوچتارہا اور اس درجہ منہمک ہواکہ مجھے کچھ خیال ہی نہ رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔(حوالہ مذکورہ 290/3)
حضرت اسید بن حضیر کے متعلق بھی اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ انھیں حضرت داؤد علیہ السلام کی خوش گلوئی عطا کی گئی ہے اور وہ اپنے متعلق خود کہتے ہیں کہ تین اوقات میں میرا جو حال ہوتاہے کاش وہی مستقل حال ہوتا۔ ایک اس وقت جب قرآن پڑھتا یا سنتا ہوں، دوسرے جب نبی ﷺ خطاب فرماتے ہیں، تیسرے جب میں جنازہ میں ہوتا ہوں۔(رہبان اللیل 331/1)
وہ نہایت خشوع و خضوع اور مخصوص ترنم اور لے کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے ، ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ان کی تلاوت سننے کے لیے فرشتوں کا ایک مجمع آسمان سے اتر آیا، امام بخاری و مسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ قرآن کی تلاوت کررہے تھے ، اچانک ان کا گھوڑا اچھلنے لگا، انھوں نے تلاوت جاری رکھی، گھوڑا اور زیادہ اچھل کود مچانے لگا اور انھیں اندیشہ ہوا کہ ان کے چھوٹے لڑکے یحییٰ کو جووہیں سوئے ہوئے تھے کہیں روندنہ دے، انھوں نے پڑھنا بند کردیا اور گھوڑے کے پاس گئے دیکھاکہ ان کے سر پہ سائبان جیسی کوئی چیز ہے جس میں بہت سے قمقمے روشن ہیں اور اب وہ اوپر جارہی ہے ، یہاں تک کہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ، صبح کے وقت وہ اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ سنایا، آنحضرت نے فرمایا وہ فرشتے تھے جو تمہارا قرآن سننے کے لیے آئے تھے ، اگر تم اسی طرح سے پڑھتے رہتے تو وہ صبح تک رہتے اور تمام لوگ انھیں دیکھتے۔(صحیح بخاری ومسلم)
قرآن کو سن کر ایک مشرک اور اسلام دشمن ولید بن مغیرہ نے کہاتھا:
ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ وان اسفلہ لمعذق وانا اعلاہ لمثمر وما یقول لہ ھذا بشر(رواہ البیہقی ،المغنی مع الاحیاء323/1)
اس میں بڑی مٹھاس ، رونق اور تروتازگی ہے ، اس کا نچلا حصہ خوشگواراور اوپری حصہ پھل دار ہے ، کوئی انسان ایسی بات نہیں کہہ سکتاہے۔
صحابہ کرام کی نگاہیں اس کی رونق اور دلکشی کی متلاشی رہتیں، ان کے کام و دہن اس کی مٹھاس اور شیرینی سے آشنا تھے، جو انھیں میٹھی نیند کی قربانی ، نرم بستر سے کنارہ کشی اور بیوی کے پہلو سے جدائی پر آمادہ رکھتی، وہ ہر طرح کے عیش و راحت اور رنج و کلفت سے بے نیاز اپنے پالنہار کے سامنے قیام اور سجدے کی حالت میں پوری رات گزار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی سمجھتے ہیں کہ جو حق تھا وہ ادانہیں ہوا، اس لیے ان کی صبح دعاء مغفرت اور کوتاہی کی معافی کی حالت میں ہوتی ہے ۔(الذاریات:17-18)
رات کے آخری حصہ میں نیند بڑی گہری اور اچھی آتی ہے ، گرمی کے دنوں میں اس وقت رات ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور جاڑے میں لحاف کی گرمی اور باہر کی سخت سردی نکلنے نہیں دیتی ، سناٹے کی چادر تنی ہوتی ہے لیکن فضا بڑی پرکیف اور نورانی ہوتی ہے ، یہ فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے، اس وقت رحمتوں کی بارش ہوتی ہے ، خالق کائنات اپنے بندوں کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں، اس لیے یہ اس سے مناجات اور سرگوشی کا وقت ہے اور صحابہ کرام اس وقت کی اہمیت سے اچھی طرح آگاہ تھے، بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت مدینہ کی گلیوں سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز آتی کہ وہ کتاب الٰہی کی تلاوت میں مشغول رہتے۔
دن بھر کے تھکے ماندے ہیں، بدن چور چور ہے، غم و آلام سے رنجور ہیں لیکن ان کے لیے راحت کا سامان تو رب سے ہم کلامی میں ہے ، وہ دن بھر اسی انتظار میں رہتے کہ کب رات ہو اور انھیں ہم کلامی کا شرف حاصل ہو۔
کب رات ہو، کب ان سے ہوں خلوت میں پھر بہم*
رہتی ہے دھن یہی ہمیں دن بھر لگی ہوئی.
(عزیز الحسن مجذوبؔ)
اس لیے وہ مزا لے لے کر قرآن پڑھتے تھے ، تیزی کے ساتھ قرآن پڑھنا انھیں سخت ناپسند تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:
ولا تھذوہ ھذا کھذ الشعر قفوا عند عجائبہ وحرکوا بہ القلوب ولایکن ھم احدکم آخر السورۃ (اخرجہ الجری فی اخلاق حملۃ القرآن۔ کیف نتعامل مع القرآن /195)
اشعار کی طرح جلدی جلدی نہ پڑھو، بلکہ اس کے عجائبات کے پاس رک جاؤ اور دل کو گرمی پہنچاؤ، بس کسی طرح سورہ ختم کرنے کی فکر نہیں ہونی چاہئے۔
قرآن سننا:
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے:
واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون.(سورہ الاعراف :204)
جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے.
قرآن سننے کے بعد صحابہ کرام کی کیا کیفیت ہوتی تھی خود قرآن میں اس کی منظر کشی کی گئی ہے :
انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم واذا تلیت علیہم آیاتہ زادتھم ایمانا(سورۃ الانفال:2)
ایمان والے وہی لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا نام لیاجائے تو ڈرجائیں اور جب اس کا کلام پڑھاجائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجائے۔
یہ قرآن کی شہادت ہے اور اس سے بڑھ کر کس کی گواہی ہوسکتی ہے ، صحابہ کرام کے لیے قرآن پڑھنا اور سننا ایمان و یقین میں اضافہ کا ذریعہ اور لذت آفریں مشغلہ تھا، خود اللہ کے رسول ﷺ بسااوقات دوسروں سے قرآن سننا پسند فرماتے تھے کہ خوش آوازی اور نغمگی کا ایک خاص اثر ہوتاہے، حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے کہاکہ قرآن پڑھو، میں نے عرض کیا آپ کے سامنے پڑھوں؟ حالانکہ قرآن خود آپ پر نازل ہواہے، فرمایامیں دوسروں سے سننا چاہتاہوں، میں نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کی ، جب میں اس آیت پر پہنچا:
فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہیدوجئنا بک علیٰ ھولاء شہیداً
اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور تمہیں ان سب پر گواہ بنائیں گے۔
ایک صاحب نے مجھے کچوکا لگایا میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔(صحیح بخاری و مسلم)
ایک رات رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر وعمر کافی دیر تک حضرت عبداللہ بن مسعود کی تلاوت سنتے رہے ، پھر آپ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کو تروتازہ بالکل اسی اندازمیں پڑھنا چاہے جیساکہ نازل ہواہے تو اسے ابن مسعود کی طرح تلاوت کرنی چاہئے۔(اخرجہ احمد والترمذی وابن ماجۃ ۔المغنی مع الاحیاء 329/1)
حضرت ابوموسیٰ اشعری اپنے مخصوص لَے میں قرآن کی تلاوت کررہے ہیں اور ان کی بے خبری میں اللہ کے رسول ﷺ سن رہے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا : انھیں تو داؤد علیہ السلام کی بانسری مل گئی ہے ، حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو جب اس کی خبر ہوئی تو کہنے لگے اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اللہ کے رسول ﷺ سن رہے ہیں تو اور اچھی طرح سے پڑھتا۔(صحیح بخاری و مسلم )بعض روایتوں میں ہے کہ اس موقع پر حضرت عائشہؓ بھی آپ کے ساتھ تھیں۔(حلیۃ الاولیاء 258/1)
ایک رات عشاء کے بعد نبی ﷺ حضرت عائشہؓ کا انتظار کررہے تھے ، انھیں مسجد سے آنے میں قدرے تاخیر ہوگئی آپ نے پوچھا دیر کیوں ہوئی؟ انھوں نے کہا ایک صاحب قرآن پڑھ رہے تھے ، میں نے اتنی اچھی آواز کبھی نہیں سنی ، میں ان کی تلاوت سننے میں محو ہوگئی تھی ، نبی ﷺ اٹھے اور آپ بھی کافی دیر تک ان کی تلاوت سنتے رہے اور کہا یہ ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں ، اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں اس جیسے لوگ موجود ہیں۔(المغنی مع الاحیاء 329/1)
حضرت عمر ، حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے کہاکرتے تھے ہمیں اپنے رب کی یاد دلاؤ تو وہ ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے ۔(حیاۃ الصحابہ285/3)
حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب سے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے سامنے ’’لم یکن الذین کفروا‘‘کی تلاوت کروں۔ انھوں نے دریافت کیا۔ اللہ عز و جل نے میرانام لیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایاہاں، یہ سن کر خوشی کی وجہ سے حضرت ابی رو پڑے۔(صحیح بخاری و مسلم )
حضرت علقمہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑی اچھی آواز عطا کی تھی ، حضرت عبداللہ بن مسعود مجھ سے قرآن سنتے تھے اور فرماتے تھے ، میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، تم پڑھو، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اچھی آواز قرآن کی زینت ہے۔(مختصر قیام اللیل/56)
حفظ کرنا:
قرآن کو یہ خصوصیت اور امتیا ز بھی حاصل ہے کہ اسے یاد کرنا بڑا آسان ہے مسلمانوں کا اس کتاب کے ساتھ بے مثال تعلق ، محبت اور شیفتگی نے بھی اس عمل کو بہت سہل کردیا ہے ، آج بھی لاکھوں مسلمانوں کے سینوں میں کتاب الٰہی مکمل طور پر محفوظ ہے، وہ لوگ بھی اس کے حافظ ہیں جو عربی نہیں جانتے اور اس کے مفہوم سے ناواقف ہیں بلکہ معصوم بچوں کے سینوں میں بھی اس کتاب نے اپنا گھر بنالیاہے۔
صحابہ کرام اس معاملہ میں بھی میر کارواں ہیں، چنانچہ انھوں نے کتاب الٰہی کو دل کے آئینہ میں بسایا، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ جس دل میں قرآن محفوظ نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔(حدیث میں ہے ان الذی لیس فی جوفہ شیٔ من القرآن کالبیت الخرب رواہ الترمذی قال حسن صحیح)
اللہ کے رسول ﷺ قرآن حفظ کرنے والوں کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور ہر معاملہ میں انھیں ترجیح دی جاتی تھی ، آپ ﷺ کہاکرتے تھے کہ نماز میں امامت وہ کرے جسے سب سے زیادہ قرآن یاد ہو، نیز جنگ احد میں شہید ہونے والوں کو دفن کرتے ہوئے آپ پوچھتے تھے کہ ان میں سے کسے قرآن زیادہ یاد ہے؟ ایسے شخص کو آپ پہلے دفن کرتے (صحیح بخاری :6502)
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ایک لشکر روانہ فرمایا، روانگی سے پہلے ہر شخص کے حفظ قرآن کا آپ نے امتحان لیا ، ان میں سے سب سے کم عمر نوجوان سے آپ نے پوچھا تمہیں کیا یاد ہے ؟ اس نے کہا فلاں فلاں سورہ اور سورہ بقرہ، آپ نے دو بارہ پوچھا کیا تمہیں سورہ بقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا : ہاں، آپ نے فرمایا : جاؤ، تم ان لوگوں کے امیر ہو۔(ترمذی:2879)
تبلیغی وفود میں بھی زیادہ تر حافظ قرآن کو روانہ کیا جاتا، حضرت مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم کو ان کے حفظ قرآن کی بنیاد پر مدینہ میں اسلام کی تبلیغ اور تعلیم کے لیے روانہ کیا۔ بئر معونہ کے مشہور واقعہ میں ستر صحابہ کرام شہید ہوئے جو سب کے سب حافظ قرآن تھے، اسی طرح سے مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی جنگ یمامہ میں بھی شہید ہونے والوں میں ستر صحابی حافظ قرآن تھے اور یہی وہ شرف ہے جس کی بنیاد پر بسااوقات آپ نے ایسے لوگوں کا رشتہ بغیر کسی مہر کے طے کردیا جن کے سینوں میں قرآن کا کچھ حصہ محفوظ تھا۔
مکہ کے گورنرنافع بن عبدالحارث کہتے ہیں کہ وہ حضرت عمر سے ملاقات کے لیے عسفان نامی جگہ پر آئے۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنا نائب کسے بنایا ہے؟ انھوں نے کہا: ’’ابن ابزی‘‘کو، پوچھا یہ کون ہے؟ کہا میرا آزادکردہ غلام ہے، فرمایا تم نے ایک غلام کو اپنا نائب بنادیا۔ انھوں نے کہا وہ قرآن کا حافظ اور فرائض کا عالم ہے ، حضرت عمر نے یہ سن کر کہا کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
ان اللہ یرفع بھذا اقواماً ویضع بہ آخرین(صحیح مسلم :542)
اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعہ کچھ لوگوں کو بلندی عطاکرتے ہیں اور کچھ کو پستی میں گرادیتے ہیں۔
خود حضرت عمر بھی حافظ قرآن کو خصوصی اہمیت دیتے اور حکومت کے کاموں میں انھیں شریک مشورہ رکھتے۔ خواہ وہ نوعمر اور نوجوان ہوں یا عمر دراز ۔کان القراء اصحاب مجلس عمر ومشاورتہ کھولا کان اور شبانا(صحیح بخاری :1527)
صحابہ کرام کی نگاہوں میں حفظ قرآن کی کس درجہ اہمیت تھی اس کا اندازہ حضرت انس کے اس قول سے لگائیے وہ فرماتے ہیں:
کان الرجل اذا قرء البقرۃ وآل عمران جل فی اعیننا(مقدمہ فی اصول التفسیر لابن تیمیہ/ 99)
جب کوئی سورہ بقرہ اور آل عمران یاد کرلیتا تو وہ ہماری نگاہوں میں بڑا عظیم بن جاتا۔
صحابہ کرام میں سے خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود، ابن عمر، ابن عباس، سالم، حذیفہ، ابوہریرہ، ابوموسیٰ اشعری، تمیم داری، عقبہ بن عامر، عبدامہ بن سائب، طلحہ، سعد، عبادہ بن صامت، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، ابودرداء، ابوایوب، ابوزید کے متعلق منقول ہے کہ یہ لوگ پورے قرآن کے حافط تھے۔(الاتقان 201-203)
قرآن سمجھنا
قرآن سمجھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر لفظ پر رک کرکے اس کے لغوی مفہوم کی تحقیق کی جائے، فصاحت و بلاغت کی جستجو میں رہاجائے، اعجاز کی شکل و صورت متعین کی جائے، ادبی اور تاریخی خوبیوں اور حقیقتوں کی تلاش میں رہا جائے، گرچہ یہ چیزیں بھی قرآن سمجھنے کی راہ میں مددگار ہیں لیکن یہ قرآن کے بنیادی مقاصد میں شامل نہیں، قرآن سمجھنے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس سے نصیحت ، عبرت اور موعظت حاصل کرے، چنانچہ قرآن میں اس کے لیے ’’تدبر‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیاہے ، اور یہ کسی چیز کے انجام پر غورو فکر کے معنی میں آتاہے، کسی چیز کے انجام سے ایسی آگاہی جو اثرپذیری اور نصیحت و عبرت حاصل کرنے پر آمادہ کردے اس کا نام ’’تدبر‘‘ ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے۔
کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا آیاتہ ولیتذکر اولو الالباب(سورہ ص :29)
ہم نے تم پر بابرکت کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور صاحب عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔
’’تدبر‘‘کے اس مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے صحابہ کرام سے متعلق یہ واقعات پڑھئے۔
امام بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود ؓ سے کہا کہ میں مفصلات کو ایک رکعت میں پڑھ لیتاہوں، انھوں نے کہا کہ یہ انداز اشعار کے پڑھنے کا ہے ، کچھ لوگ ایسے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں جو ان کے گلے سے نیچے نہیں اترتا، قرآن جب دل میں اترتا ہے اور اپنی جگہ بنالیتاہے تو فائدہ پہنچاتاہے(کیف نتعامل مع القرآن للقرضاوی/159)، نیز وہ کہاکرتے تھے کہ قرآن کو جلدی جلدی اشعار کی طرح نہ پڑھا کرو بلکہ اس کے عجائبات کے پاس تھوڑی دیر کے لیے رک جایاکرو اور دل کو گرمایا کرو، یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ سورہ شروع کردی ہے تو ختم کرہی کے دم لوں۔(مختصر قیام اللیل/132)
وہ اپنے متعلق خود کہاکرتے تھے:
اصحاب محمد کو یہ معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ کتاب اللہ کا عالم ہوں، اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کوئی مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے تو میں اس سے علم حاصل کرنے کے لیے سفر سے بھی گریز نہیں کروں گا، شقیق کہتے ہیں کہ میں اصحاب محمد کی مختلف مجلسوں میں شریک رہالیکن کسی نے بھی ابن مسعود کی بات کی تردید نہیں کی اور نہ ہی ان پر نکیر کی گئی ۔
حضرت ابومسعود کہتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے بعد ابن مسعود سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا کوئی دوسرا نہیں ہے ، حضرت ابوموسیٰ اشعری نے یہ سن کر کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم غیر حاضر رہتے تو وہ آنحضرت کی خدمت میں موجود ہوتے اور جہاں جانے سے ہمیں روک دیا جاتا وہاں تک ان کی رسائی تھی۔(بخاری و مسلم)
قرآن سمجھنے سے ابن مسعودکو کس درجہ شغف تھا؟ اس روایت سے اس کا اندازہ کیاجاسکتاہے اور ساتھ ہی ابن مسعود کے شرف و منزلت کا پتہ بھی چلتاہے۔
حضرت علی ؓ کہاکرتے تھے:
لا خیر فی عبادۃ لیس فیھا تفقہ ولا فی علم لیس فیھا تفہم ولا فی قرأ ۃ لیس فیھا تدبر(کیف نتعامل مع القرآن/159)
’’سنو! بے سمجھے عبادت،بغیر فہم کے علم اور تدبر کے بغیر قرآن پڑھنے میں کوئی اچھائی نہیں ہے ۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عباس تفسیر قرآن میں نمایاں حیثیت کے مالک ہیں، خود اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے لیے دعا کی تھی کہ اے اللہ! اسے اپنی کتاب کا علم دے دے(صحیح بخاری) ان کی اس مخصوص خوبی کی وجہ سے حضرت عمر انھیں اپنے قریب جگہ دیتے تھے، بعض لوگوں کو ان کا یہ طرز عمل ناگوار گذرتا، وہ کہاکرتے تھے کہ ہمارے بچے بھی انھیں کی عمر کے ہیں انھیں اس محفل تک رسائی کیوں نہیں ملتی ؟حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ملی اور انھوں نے اس شکایت کو ختم کرنے اور ابن عباس کی حیثیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک مجلس میں جس میں بڑے بڑے صحابہ کرام موجود تھے یہ سوال کیا کہ ’’اذا جاء نصر اللہ‘‘ کا کیا مفہوم ہے؟ کچھ لوگ خاموش رہے اور بعض لوگوں نے کہاکہ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ فتح و نصرت کے بعد ہم اس کی حمد و ثنامیں مشغول ہوجائیں، حضرت عمر ؓ ابن عباسؓ کی طرف متوجہ ہوئے انھوں نے کہا کہ اس میں بتلایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہے اور ان کی عمر تمام ہوچکی ہے ، حضرت عمر نے کہا کہ میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔(صحیح بخاری)
’’تدبر‘‘ ہی کا نتیجہ تھاکہ ایک ایک آیت کی تلاوت میں پوری رات گذرجاتی آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ، جیساکہ حضرت ابوبکر و عمرؓ ، ابن مسعودؓ، عامر بن قیسؓ اور تمیم داریؓ وغیرہ کے متعلق گذرچکاہے اور حضرت ابوریحانہ ازدی کے متعلق آچکا ہے کہ وہ جنت اور اس کی نعمتوں کی سوچ میں اس درجہ غرق ہوئے کہ رات گذرنے کا انھیں اندازہ ہی نہیں ہوا۔ حضرت عبادہ بن بشر سورہ کہف کی تلاوت میں اس درجہ محو ہیں کہ تیر پہ تیر کھائے جارہے ہیں لیکن اسے بیچ سے چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔
ایک شخص نے زید بن ثابت سے پوچھا کہ سات دن میں پورا قرآن پڑھ لینے کے سلسلہ میں آپ کیا کہتے ہیں ، انھوں نے کہا ٹھیک ہے لیکن پندرہ یا بیس روز میں پڑھنا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ، پوچھو ایسا کیوں ہے؟ سوال کرنے والے نے کہا ایسا کیوں ہے ؟ انھوں نے کہا تاکہ ٹھہر ٹھہر کر اس پر غور کرسکوں۔(مختصر قیام اللیل/149)
حضرت ابوجمرۃ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ میں قرآن بہت تیز رفتاری کے ساتھ پڑھتاہوں اور تین دن میں مکمل کرلیتاہوں ، انھوں نے کہا تمہاری طرح پڑھنے کے بالمقابل مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ پوری رات میں صرف سورہ بقرہ پڑھوں۔ اس طرح کہ رک رک کر اس پر غور کرتارہوں۔(حوالہ مذکور
)
اثر پذیری:
قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے صحابہ کرام پر کیا کیفیت طاری ہوتی تھی، وہ کس درجہ متاثر ہوتے تھے، ان کے آئینے کی طرح شفاف اور ریشم کی طرح ملائم دل کا کیا حال ہوتا تھا؟ جسم و جان کو پیدا کرنے والے اور دلوں کے بھید سے آگاہی رکھنے والے کا بیان ہے:
اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہاً مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُدَی اللَّہِ یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَشَاء ُ وَمَن یُضْلِلْ اللَّہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (سورۃ الزمر :23)
اللہ نے بہترین کلام اتاراہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں، اور جس میں باربار مضامین دہرائے گئے ہیں، اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں پھر ان کے جسم اور دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں، یہ اللہ تعالی کی ہدایت ہے، جس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ ہدایت نہ دے تو پھر اس کا کوئی رہنما نہیں ہے۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہیں کہ صحابہ کرام کا عام حال یہ تھا کہ جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ، (تفسیر قرطبی۔ معارف القرآن 551/7) اور علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ صحابہ کے سامنے جب قرآن پڑھاجاتا تو وہ کانپنے لگتے ، ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے، اور ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے، لیکن وہ عقل و خرد سے بے گانہ ہوکر چیختے اور چلاتے نہیں تھے، بلکہ نہایت ہی سکون اور وقار کے ساتھ، اور خوف و خشیت کے باوجود ادب کے ساتھ قرآن سناکرتے تھے، اسی لیے اللہ تعالی کی طرف سے دینا و آخرت میں تعریف سے سرفراز کے گئے، قتادہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ولیوں کی صفت ہے، اللہ تعالی نے ان کی یہ خوبی بیان کی ہے کہ ان کے جسم لرز جاتے ہیں، اور ان کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کی یہ حالت بیان نہیں کی ہے کہ ان کی عقل رخصت ہوجاتی ہے، وہ مدہوش ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ اہل بدعت کی خصلت ہے، اور شیطانی حرکت ہے( تفسیر ابن کثیر 52/4)
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیْمَاناً وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُون ( سورۃ الانفال:2)
اہل ایمان وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں ۔
إِنَّمَا یُؤْمِنُ بِآیَاتِنَا الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوا بِہَا خَرُّوا سُجَّداً وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُونَ (سورۃ السجدہ:15)
ہماری آیتوں پر ہر وہ لوگ ایمان رکھتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کے حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور تکبیر نہیں کرتے۔
وَالَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْْہَا صُمّاً وَعُمْیَاناً (سورۃ الفرقان: 73)
جب انھیں ان کے رب کی آیات کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے بہرے ہوکر نہیں گرتے۔
سچے دل سے ایمان رکھنے والوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اندے اور بہرے بنکر اللہ کی آیات کو نہیں سنتے بلکہ اللہ کی رحمت اور اس کے لطف وکرم کی امید میں اور اس کے عذاب و عقاب کے خوف کی وجہ سے بے ساختہ اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں، ان کا دل لرزاں اور ترساں اور ان کا سر جھکا ہوتاہے، اور زبان اس کی حمد وثنا اور پاکی بیان کرنے میں مشغول ہوتی ہے، اور ان میں اپنے عمل کی وجہ سے کسی قسم کی بڑائی کا احساس اور وسوسہ نہیں ہوتا اور ظاہر ھیکہ صحابہ کرام ان تمام خوبیوں کے اولین مصداق ہیں۔
وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ (سورۃ المائدہ:83)
جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ کلام کو سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے، اس لئے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ہے، اور وہ بول اٹھتے ہیں پروردگار ہم ایمان لے آئے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
اس آیت میں ایسے صحابہ کرام کا ذکر ہے جو اہل کتاب تھے، لیکن یہ انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ دوسرے صحابہ کرام بھی اس صفت میں ان کے ساتھ شریک ہیں، اس لئے کہ قرآنی آیات اور نبی ﷺ کی تربیت نے ان دے دل کو آئینہ کی طرح شفاف اور ریشم کی طرح ملائم بنا دیا تھا، ان کا شعور اور وجوان ہدایت الہی کے تابع تھا، وہ چشم بصیرت سے اللہ کی رحمت اور اسکی محبت و شفقت اور اس کی عظمت وجلالت کا مشاہدہ کیا کرتے تھے، اس لئے قرآنی آیات کو پڑھتے اور سنتے ہوئے ان کی آنکھیں اشکبار اور ان کا دل کانپ اٹھتا تھا، اور وہ بے اختیار اپنے مالک کے حضور سجدہ رہزہوجاتے، حضرت عبد اللہ بن مسعود صحابہ کرام کا تعارف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اولئک اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کانوا افضل ھذہ الا مۃ ابرھا قلوبا و اعمقھا علما و اقلھا تکلفا اختارھم اللہ لصحبۃ نبیہ ولاقامۃ دینہ فاعرفوا لھم فضلھم واتبعوھم علی آثارھم وتمسکوا بما استطعتم من اخلاقھم وسیرھم فانھم کانوا علی الھدی المستقیم، ( مشکوۃ المصابیح ؍ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
یہ محمد ﷺ کے ساتھی ہیں، اس امت میں سب سے بہتر ہیں، دل کے اعتبار سے سب سے نیک، علم کے لحاظ سے سب سے گہرے، اور تکلف میں سب سے کم، اللہ تعالی نے انھیں اپنے بنی کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کیلئے منتحب کیا تھا ان کی فضیلت کو پہچانو اور ان کے نقش قدم پر چلو اور جہاں تک تم سے ہوسکے ان کے اخلاق اور سیرت کو مضبوطی سے تھام لو، کیونکہ وہ تمام لوگ سیدھے راستے پر تھے۔
اس امت میں سب سے زیادہ نرم دل اور رحم دل حضرت ابوبکر تھے، ان کے متعلق متعدد روایتوں میں ہے کہ وہ قرآن پڑھتے ہوئے اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رکھ پاتے اور زاروقطار روتے، (سیرت ابن حشام 374/1) حضرت عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ جب ’’اذا زلزلت الارض ‘‘ نازل ہوئی اور حضرت ابوبکر نے سنا تو رونے لگے، اللہ کے رسول نے پوچھا کیوں رورہے ہو، کہنے لگے یہ سورۃ رلا رہی ہے (رواہ ابطہرانی والبیہقی فی الشعب، کیف نتعامل /413 )
دوسرے صحابہ کرام بھی اس کیفیت سے خالی نہ تھے۔ حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر کی امامت میں فجر کی نماز پڑھ رہاتھا، میں بالکل آخری صف میں تھا، آپ سورہ یوسف کی تلاوت کررہے تھے جب اس آیت پر پہونچے:
اِنَّمَا اَشْکْوُ بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ .
(حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا) میں اپنے رنج وغم کی شکایت صرف، اللہ سے کررہا ہو۔
تو انھیں اپنی آواز اور آنسؤں پر قابو نہ رہا، اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی مجھے ان کی ہچکیوں کی آواز دور سے سنائی دے رہی تھی۔
حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ حضرت عمررات کی نمازمیں کبھی کوئی آیت پڑھتے تو اس قدر روتے کہ گرجاتے بیمار پڑجاتے کہ گھر سے نکلنے کی سکت نہ ہوتی اور لوگ عیادت کیلئے آتے (تاریخ الاسلام للذھبی 57/2)
جذبۂ عمل:
قرآن پڑھنے، اور سمجھنے کا مقصد ہے اس پر عمل کرنا، وہ محض زبان ہلانے اور ذہن و دماغ کو تھکانے کیلئے نازل نہیں ہواہے، بلکہ وہ اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس کے بتائے ہوئے راستوں پر چلاجائے، اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
ھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ( سورۃ الانعام :100 )
ہم نے ایک بابرکت کتاب نازل کی ہے، پس تم اس کی پیروی کرو اور تقوی کی روش اختیار کرو شاید تم پر رحم کیا جائے۔
اِتَّبِعُوْ ا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَائَ قَلِیْلًا مَّاتَذَکَّرُوْنَ ( سورۃ الاعراف :3)
اس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتاراگیا ہے، اور اپنے رب کو چھوڑکر دوسرے سرپرستوں کی پیروی مت کرو، مگر تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
صحابہ کرام قرآنی تعلیمات کا پیکر تھے، انھوں نے اپنے آپ کو قرآنی سانچے میں ڈھال لیا تھا، اور اپنی زندگی کی لگام اس کے ہاتھوں میں دے دی تھی کہ وہ جدھر لے جاتا ہے بے چوں و چرا چل پڑتے، وہ رسول اللہ ﷺ سے محض قرآن کے الفاظ و معانی نہیں لیتے بلکہ اس کے ساتھ وہ عمل بھی سیکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں :
کان الرجل منا اذا تعلم عشر آیات من القرآن لم یجاوز من حتی یعرف معانیھن والعمل بھن ( رواہ الطبری وقال الشیخ شاکر اسنادہ صحیح مقدمہ تفسیر طبری 80/1)
ہم لوگ جب قرآن کی دس آیتیں سیکھ لیتے تو آگے نہیں بڑھتے جب تک کم ان کے معانی اور عمل کو نہ جان لیتے۔
اور حضرت عبد الرحمان سلمی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے اصحاب جو ہمیں قرآن پڑھا یاکرتے تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے دس آیتیں معلوم کرتے اور دوسری دس آیتوں کے جاننے سے پہلے ان میں جو علم و عمل ہے اسے سیکھتے، تو ہم نے علم و عمل دونوں کو ایک ساتھ جانا ہے۔( فضائل القرآن للفریابی /241)
حضرت مسطح ، حضرت ابوبکر کے قریبی رشتہ دار تھے، غریب اور نادار تھے، حضرت ابوبکر ان کی کفالت کیا کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود صدیقہ بنت صدیق، نبی ﷺ کی پاکیزہ اور برگزیدہ بیوی حضرت عائشہ پر تہمت لگانے والوں اور اسے ہوا دینے والوں میں یہ بھی شامل تھے، ان کے احسان کے زیر بار اس قریبی رشتہ دار کے رویہ سے جو تکلیف اور ٹھیس پہونچی ہوگی وہ ناقابل برداشت اور ناقابل بیان ہے، اس لئے انھوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں اب مسطح کو کچھ نہیں دونگا ’’واللہ لا انفق علی مسطح شیئا ابدا‘‘ لیکن اللہ تبارک و تعالی کے یہاں اس ردعمل کو پسند نہیں کہا گیا اور یہ آیت نازل ہوئی:
ولا یاتل اولو االفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربی والمسکین والمھاجرین فی سبیل اللہ و لیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم۔
تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب ثروت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی مدد نہیں کریں گے ۔ انہیں معاف کردینا اور درگزر کردینا چاہئے، کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے قصور کو معاف کردے، اللہ تعالی خطاؤوں کو معاف کرنے والے اور مہربان ہیں،
حضرت ابوبکر نے جب یہ سنا تو بے ساختہ پکار اٹھے، ہمارے پروردگار! ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرمادے، اس کے بعد انھوں نے پہلے کی طرح مسطح کی کفالت شروع کردی۔ اور یہ بھی کہا کہ اللہ کی قسم اب کبھی بھی ان کا خرچہ بند نہیں کروں گا واللہ لا انزعھا منہ ابدا (صحیح بخاری وغیرہ .جمع الفوائد 104/2)
حضرت ابوبکر و عمر، نبی ﷺ کی خدمت میں موجود ہیں ایک مسئلہ کو لیکر دونوں میں تکرار کی نوبت آگئی، اور آواز قدرے بلند ہوگئی، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا
تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ o إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّونَ أَصْوَاتَہُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّہِ أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ عَظِیْمٌ o ( سورۃ الحجرات :2-3)
مومنو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور آپس میں تم ایک دوسرے سے جس طرح اونچی آواز میں گفتکو کرتے ہو نبی کے پاس اس طرح بلند آواز سے گفتگو نہ کرو،کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہارا سب کیا کرایا غارت ہوجائے۔ اور جو لوگ رسول اللہ کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کیلئے پرکھ لیا ہے، ان کیلئے مغفرت اور بڑا ثواب ہے۔
راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر کی یہ کیفیت ہوگئی تھی کہ نہایت ہی پست آواز میں گفتگو کرتے، یہاں تک کہ کہنا پڑتا کہ دوبارہ کہئے آپ کی بات سنائی نہیں دی، ( جامع ترمذی :738.صحیح )
صحابہ کرام کے متعلق سورۃ فتح میں کہا گیا ہے :
’’والزمھم کلمۃ التقوی وکانوا احق بھا واھلھا‘‘
اللہ نے انھیں تقویٰ کا پابند رکھا اور وہی اس کے زیادہ حقدار اور اس کے اہل تھے۔
اور مذکورہ آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں کو ’’تقویٰ‘‘ کے لئے پرکھ لیا ہے، تو جن کے دلوں کو خود اللہ تعالیٰ نے تپا تپا کر کھرا کردیا اور مانجھ کر شفاف اور پاکیزہ بنادیا ہے۔ اور جنھیں پرکھ کرپرہیز گاری کے لئے چن لیا گیا ہے، ان کے متعلق کسی اور کسی گواہی کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے؟
حربن قیس ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں قرآن سے تعلق ہونے کی وجہ سے حضرت عمر اپنے سے قریب رکھتے تھے، اور ان کے قریب رہنے والے عام طور پر ایسے ہی لوگ تھے، ان کے چچا عیینہ نے ان سے کہا کہ عمر سے میری ملاقات کرادو، ملاقات ہونے پر انھوں نے کہا خطاب کے لڑکے!تم نہ تو ہمیں کچھ دیتے ہو اورنہ ہی ہمارے سلسلہ میں انصاف سے کام لیتے ہو، حضرت عمر شدید ناراض ہوئے اور چاہا کہ اس تلخ کلامی کا مزا انھیں چکھادیں، حربن قیس نے فوراً یہ آیت پڑھی:
خذ العفو و امر بالعرف واعرض عن الجاھلین ( الاعراف :199)
معافی کو لازم کرلو، اچھائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو.
یہ جاہلوں میں سے ہے لہذا درگذر اور چشم پوشی سے کام لیں، راوی کہتا ہے کہ جس وقت انھوں نے یہ آیت پڑھی حضرت عمر وہیں رک گئے، ذرا بھی آگے نہیں بڑھے، اور وہ کتاب اللہ کے سامنے رک جانے والے تھے فواللہ ماجاوزھا عمر حین تلاھا و کان وقاقا عند کتاب اللہ (صحیح بخاری:1527، کتاب الاعتصام)
اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کے موقع پر حضرت عمرؓ ننگی تلوار لئے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جو کہے گا کہ اللہ کے رسول کی وفات ہوگئی ہے اس کے جسم کو سر کے بوجھ سے ہلکا کر دونگا، حضرت ابوبکرؓ آتے ہیں، صورت حال کو دیکھتے ہیں، لوگوں کو جمع کرکے خطاب کرتے ہیں حضرت عمرؓ سے باربار کہتے ہیں کہ بیٹھ جاؤ مگروہ بیٹھنے سے انکار کردیتے ہیں، حضرت ابوبکرؓ دوران تقریر یہ آیت پڑھتے ہیں:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَن یَنقَلِبْ عَلَیَ عَقِبَیْْہِ فَلَن یَضُرَّ اللّہَ شَیْْئاً وَسَیَجْزِیْ اللّہُ الشَّاکِرِیْن (آل عمران: 144)
محمد ؐ ایک پیغامبر ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر آچکے ہیں، تو کیا اگر ان کو موت آجائے یا جام شہادت نوش کرلیں تو تم اپنی پچھلی زندگی کی طرف پلٹ جاؤگے، اور جو پلٹے گا وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہونچائے گا اور اللہ شکرگزاروں کو جلدی بدلہ عنایت کریں گے۔
یہ آیت سن کر حضرت عمرؓ اپنے متعلق خود کہتے ہیں :
واللہ ماھو الا ان سمعت ابابکر تلاھا فعقرت حتی ماتقلنی رجلای وحتی اھویت الی الارض، (بخاری :918 کتاب المغازی)
اللہ کی قسم ! جیسے ہی میں نے ابوبکرؓ کی زبان سے یہ آیت سنی، میرے پیر کی طاقت ختم ہوگئی ان میں میرا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی اور میں دھپ سے زمین پر آپڑا۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
اے حاملین قرآن! اس پر عمل کرو، کیونکہ عالم وہی ہے جو اپنے علم پر عمل کرتا ہو، اور اس کے علم وعمل میں یکسانیت ہو ۔کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جو علم سیکھیں گے، لیکن وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اتریگا، ان کا عمل ان کے علم کے برخلاف اور ان کے ظاہر وباطن میں تضاد ہوگا، وہ مجلسوں میں بیٹھ کو ایک دوسرے پر بڑائی جتائیں گے اور فخر کریں گے، ان میں کا کوئی شخص اپنے ہم نشین سے صرف اس وجہ سے ناراض ہوجائیگا کہ وہ اس کی مجلس چھوڑکر دوسرے کی محفل میں جابیٹھا ہے، ( مسند دارمی۔ التبیان /37)
حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس ایک شخص آیا اور کہا مجھے جامع اور نافع بات بتلائے، انھوں نے کہا اللہ کی عبادت کرو۔ اسکے ساتھ کسی کو شریک مت کرو۔ قرآن کے ساتھ رہو جہاں بھی تمہیں لے جائے، اگر کوئی شخص تم سے سچی بات کہے تو اس کی بات قبول کر لو، چاہے وہ چھوٹا ہویابڑا، تم سے دور ہو اور تمہاری نگاہ میں قابل نفرت، اور اگر کوئی جھوٹی بات لے کر آئے تو اسے ٹھکرا دو، چاہے کہنے والا تمہارا دوست اور قریبی ہی کیوں نہ ہو، ( فضائل القرآن لابی عبید /74)
وہ کہا کرتے تھے کہ قرآن عمل کرنے کیلئے نازل ہوا ہے، لیکن لوگوں نے اس کے پڑھنے ہی کو عمل سمجھ رکھا ہے، وہ سورۃ فاتحہ سے آخر تک پڑھ جاتے ہیں، ایک حرف بھی ان سے نہیں چھوٹتا، لیکن اس پر عمل کو چھوڑ رکھا ہے، ( احیاء علوم الدین 324/1)
حامل قرآن کی صفات وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں جس میں خود ان کی تصویر بہت نمایاں ہے۔
حامل قرآن کی پہچان اس کی رات سے ہونی چاہئے جبکہ لوگ سورہے ہوں، اس کے دن سے ہونی چاہئے جبکہ لوگ بغیر روزہ کے ہوں، اس کے حزن سے ہونی چاہئے جبکہ لوگ خوش ہورہے ہوں، اس کے رونے سے ہونی چاہئے، جبکہ لوگ ہنس رہے ہوں، اور اس کی خاموشی سے ہونی چاہئے جبکہ لوگ ادھر ادھر کی گفتگو میں مشغول ہوں، اس کے خشوع اور تو اضع سے ہونی چاہیے جبکہ لوگ اترارہے ہوں۔حامل قرآن کو انکساری اور نرم دلی سے آراستہ ہونا چاہئے، اس کیلئے سخت دل، جھگڑالو، چیخنے، چلانے اور شور مچانے والا اور کٹھورہونا مناسب نہیں ہے ( احیاء علوم الدین 234/1)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ جس نے قرآن کویاد کرلیا گویا کہ اس نے نبوت کو اپنے پہلو میں داخل کرلیا، مگر یہ کہ اس کے پاس ’’وحی‘‘ نہیں آتی لہذا اسے غصہ کرنے والوں کے ساتھ جہالت نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اس کے سینے میں اللہ کا کلام محفوظ ہے (رواہ الحاکم و صححہ ووافقہ الذھبی ۔المستدرک255/1)
حضرت ابوموسی اشعری نے ان لوگوں سے جو قرآن حفظ کرچکے تھے، اور تقریبا تین سو کے تعداد میں تھے۔ خطاب کرتے ہوئے فرمایا : یہ قرآن تمہارے لئے باعث ثواب بھی ہے اور عذاب کا ذریعہ اور سبب بھی، قرآن کی اتباع کرو اور اسے پس پشت نہ ڈالو اس لئے کہ جو قرآن کی اتباع کریگا وہ اسے لیکر جنت کے باغات میں اتریگا اور جو کوئی اسے پیٹھ پیچھے ڈال دیگا وہ اسے پشت کے بل جہنم میں گرادیگا ، (رواہ الدارمی باسناد حسن ، اخلاق حملۃ القرآن /30)
حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ اپنی نکیل قرآن کے ہاتھ میں دے دو کیونکہ وہ تمھیں درمیانی اور آسان راستہ پر چلائے گا اور ظلم وستم سے باز رکھے گا۔ (فضائل القرآن لابی عبید /72)
حضرت انس بن مالک ؓکہتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہؓ کی ملکیت میں سب سے قیمتی اور محبوب ایک باغ تھا جس میں میٹھے پانی کا چشمہ تھا جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آل عمران:92)
تم نیکی کی حقیقت کو ہرگز نہیں پاسکتے ہو جب تک کہ پسندیدہ چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔
تو وہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا میرا سب سے محبوب مال یہ باغ ہے، اور یہ اللہ کے لئے صدقہ ہے۔ (روہ احمد والشیخان ابن کثیر 381/1)
قرآن نے جب ان سے جان و مال کی قربانی مانگی، تو جان ہتھیلی پررکھ کو میدان جہاد میں وہ لوگ پیش پیش رہے جو قرآن کو پڑھنے اور یاد رکھنے والے تھے، جنگ یمامہ میں شھید ہونے والوں میں ستر حفاظ تھے، اسی معرکہ میں ایک موقع پر ندا دی جاتی ہے، سورۃ البقرۃ کے حافظو! آگے بڑھو، جادو کا زور ٹوٹ چکا ہے، حضرت حذیفہ پکارتے ہیں، قرآن والو، عمل کے ذریعہ اسے مزین کرو یااھل القرآن! زینوا القرآن بالفعال ( کیف نتعامل للقرآن للقرضاوی /143)۔ اس جنگ میں مہاجرین گا جھنڈا حضرت سالم کے ہاتھ میں تھا، کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ آپ کو تکلیف پہونچ جائے، فرمانے لگے کہ اگر میں پیچھے ہٹوں تو نہایت برا حافظ قرآن ہوں گا، لڑائی میں ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا، تو بائیں سے جھنڈا تھام لیا، وہ بھی کٹ گیا سے گردن سے لگا لیا یہاںتک کہ شھید ہوگئے( الاصابۃ 13/3. البدایۃ 324/6 )
حضرت انس کہتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ انصاری نے قرآن کی یہ آیت پڑھی :
انْفِرُواْ خِفَافاً وَثِقَالاً وَجَاہِدُواْ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ (سورۃ التوبۃ :41)
نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اللہ کی راہ میں جہاد کرو، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔
تو اپنے بیٹوں سے کہنے لگے میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، بیٹوں نے کہا اللہ آپ پر رحمت نازل کرے، آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک رہ چکے ہیں، اب ہملوگ آپ کی جگہ جہاد میں شامل ہیں، انہوں نے کہا، نہیں، میرے لئے سامان تیار کرو چنانچہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ سمندری جنگ میں شریک ہوئے اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ ( تفسیر قرطبی، کیف نتعامل مع القرآن /415)
حضرت عمروبن جموح ایک پیر سے معذور ہیں، اور معذوروں پر جہاد فرض نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ضد کرکے جنگ احد میں شریک ہوتے ہیں، اور شھید کئے جاتے ہیں، اور ان کے ساتھ ان کے چار لڑکے بھی اس جنگ میں شریک ہیں، ( حوالہ مذکور) جنگ تبوک کے موقع پر بعض صحابہ کرام کو سواری نہ مل سکی، اللہ کے رسول ﷺ کے پاس بھی انھیں دینے کیلئے سواری موجود نہیں تھی، جس کی وجہ سے آپ نے ان سے معذرت کرلی، اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کردینے کی تڑپ اور شوق اس قدر کی بے چین ہوگئے، دل ٹوٹ گیا، اور آنسئووں پہ بند باندھنا مشکل ہوگیا، قرآن میں ان کی اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
وَلاَ عَلَی الَّذِیْنَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لاَ أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْْہِ تَوَلَّواْ وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً أَلاَّ یَجِدُواْ مَا یُنفِقُون َ(سورہ التوبہ: 92)
اور ان لوگوں پر بھی کوئی حرج نہیں ہے جو خود تمہارے پاس سواری کی درخواست لیکر آتے ہیں اور تم جواب دیتے ہوکہ میرے پاس کوئی سواری موجود نہیں ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے آنسو بہا تے ہوئے لوٹ جاتے ہیں۔ انھیں اس کا بڑا قلق اور رنج ہے کہ ان کے پاس خرچ کرنے کیلئے کچھ موجود نہیں ہے ۔
شراب عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی، لیکن جب قرآن میں اسے حرام قرار دیاگیا ، تو مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی، کسی کے ہاتھ میں پیالہ ہے، کوئی صراحی سے پیالہ میں انڈیل رہاہے، کوئی جام منہ سے لگائے ہوئے ہے، لیکن جب حرام ہونے کی خبر ملتی ہے تو جو جس حال میں ہے، اسی حال میں وہ شراب کو چھوڑ دیتا ہے، پیالہ کو پٹخ دیتا ہے، صراحی توڑدی جاتی ہے، اور منہ کی شراب کو تھوک دیتا ہے اور زبان پر یہ الفاظ میں، قد انتھینا یارب قد انتھینا یارب، اے پروردگار ہم باز آگئے، ہم باز آگئے، اس لئے کہ ان کے رب نے شراب کی برائیوں کوبیان کرکے یہ پوچھا تھا فھل انتم منتھون، کہا تم اس سے باز آجائوگے؟
تعلیم کے ساتھ شغف:
رسول ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد کتاب الہی کی تعلیم ہے، (آل عمران ی:164) کہ اس کا سیکھنا اور سکھانا، پڑھنا اور پڑھانا ہر کام سے اچھا اور ہر عمل سے بہتر ہے، اس کام میں مشغول رہنے والا سب سے بہتر ہے۔رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ (صحیح بخاری :1093)
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
نیز آپ نے ارشاد فرمایا :
ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ویتدارسون بینھم الا نزلت علیھم السکنیۃ وغشیتھم الرحمۃ وحفتھم الملائکۃ ( صحیح مسلم ، ریاض الصالحین /415)
جب کچھ لوگ اللہ کے کسی گھر میں جمع ہوکر اس کی کتاب کو پڑھتے اور ایک دوسرے کو سکھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں۔
قرآن کی تعلیم پر خود اللہ کے رسول ﷺ خصوصی توجہ دیتے تھے، مدینہ کے لوگوں نے آپ کے پاس آکر جب پہلی مرتبہ بیعت کی تو آپ نے تعلیم قرآن کیلئے حضرت مصعب بن عمیر اور عبد اللہ بن ام مکتوم کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ ہجرت کے بعد آپؐ نے باقاعدہ اس کیلئے ایک جگہ مخصوص کی جسے صفہ کہاجاتاہے، جہاں اصحاب صفہ ہمہ وقت قرآن سیکھنے اور سکھانے میں مشغول رہتے قرآن اور صاحب قرآن پر جان نچھاور کرنے والے صحابہ کرام نے اسے اپنی زندگی کی اہم ضروریات میں شامل کرلیا تھا، ان میں سے ہر ایک قرآن کا معلم تھا، حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں قرآن پڑھنے والوں کے لئے وظائف مقرر کئے اور سورہ بقرہ ،مائدہ،اور سورہ نور کے متعلق حکم جاری کیا کہ تمام مسلمانوں کیلئے ان سورتوں کا سیکھنا ضروری ہے، کیونکہ زیادہ تر احکام وفرائض انہی سورتوں میں ہیں۔ (دیکھئے قاضی اطہر مبارکپوری کی کتاب خیر القرون کی درسگاہیں)
تعلیم قرآن کے سلسلہ میں چار نام بہت نمایاں ہے، جن کے متعلق خود اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
’خذوا القرآن من اربعۃ من ابن ام عبد ، ومعاذ بن جبل وابی بن کعب و سالم مولی ابی حذیفۃ ‘ ( صحیح بخاری: 3759، صحیح مسلم :1495)
قرآن چارلوگوں سے سیکھو، ابن مسعود، معاذبن جبل، ابی بن کعب اور ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم سے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود کے طرز تدریس کے متعلق نقل کیا گیا ہے ، وہ ایک آیت سکھانے کے بعد اس کی فضیلت واہمیت ذہن نشیں کراتے، وہ کہتے تھے کہ پہ آیت روئے زمین کی تمام چیزوں سے بہتر ہے ’ لھی خیر مما طلعت علیہ الشمس‘ پورے قرآن کی تعلیم کے دوران ان کا یہی طرز تھا (قال الھیثمی رواہ الطبرانی ورجالہ الصحیح مجمع الزوائد 167/7) نیز وہ کہا کرتے تھے:
علیکم بھذا القرآن فانہ ما دبۃ اللہ فمن استطاع منکم ان یاخذ من مادبۃ اللہ فلیفعل فانما العلم بالتعلم(قال الھیثمی اخرجہ البزار ورجالہ موثقون .مجمع الزوائد 129/1)
قرآن کو مضبوطی سے تھام لو اور اس سے چمٹ جاؤ اس لئے کہ یہ خدائی دسترخوان ہے اور تم سے جو کوئی اس دستر خوان سے کچھ حاصل کرسکتاہو تو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے کیونکہ علم سیکھنے سے آتا ہے۔
ان کے حوالے سے یہ روایت گذر چکی ہے کہ وہ دس آیتوں کی تعلیم کے بعد اس پر عمل کرنا سکھاتے، خود اللہ کے رسول ﷺ کا یہی طرز تھا، چنانچہ حضرت عثمان، ابی بن کعب اور ابن مسعود سے منقول ھیکہ اللہ کے رسول ﷺ انھیں دس آیتیں پڑھاتے اور آگے بڑھنے سے پہلے ان پر عمل کرنا سکھاتے، فیعلمنا القرآن والعمل جمیعا،
وہ صرف الفاظ کے معلم نہیں تھے بلکہ الفاظ کے ساتھ معانی اور عمل بھی دل ودماغ میں پیوست کرتے، اور اسی کے مطابق زندگی گزارنا سکھاتے، اور یہی تعلیم کا مقصد ہے۔