مشروط نکاح۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
اسلام دین فطرت ہے ، انسانی جذبات اور ضروریات زندگی سے مکمل طور پر ہم آہنگ؛ کیونکہ یہ کسی انسانی ذہن کی پیداوار اور اپج نہیں بلکہ اس علیم و خبیر کی طرف سے ہے جو انسان کی ضروریات اور مصالح سے اس سے زیادہ آگاہ اور واقف ہے ، ساتھ ہی اپنی مخلوقات پر رحیم و کریم اور شفیق بھی ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے لیے کچھ تحفظات چاہتاہے، خاص طور پر معاملات میں شرط کی شکل میں وہ اپنے حقوق کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتاہے، اسلام میں اس جذبہ کی مکمل رعایت رکھی گئی ہے اور شریعت کے دائرہ میں رہ کر شرط لگانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
الناس علی شروطھم ما وافقت الحق ۔
لوگوں پر ان شرطوں کی تکمیل لازم ہے جو حق کے موافق ہوں۔
نیز خریدوفروخت کے معاملہ میں رہن اور کفالہ کی گنجائش رکھی گئی ہے جو بقول ابن قدامہ ایک قسم کی شرط ہی ہے۔(المغنی 71/7)
شرط عربی لفظ ہے جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو لازم اور ضروری قرار دینا ’شریطہ‘ بھی اسی معنی میں استعمال ہوتاہے۔ (القاموس المحیط 869، لسان العرب 329/7) شرط کی اصطلاحی تعریف بھی قریب قریب یہی ہے، علامہ حموی تحریر فرماتے ہیں:
الشرط ھو التزام أمر لم یلزم فی امر قد یوجد بصیغۃ مخصوصۃ۔
شرط کسی معاملہ میں ایسی چیز کو لازم کرلینا ہے جو نفس معاملہ کی وجہ سے لازم نہ ہو، مخصوص الفاظ کے ذریعہ۔(غمزعیون البصائر225/2)
غرضیکہ شرط کی وجہ سے دوسرے فریق پر کچھ ایسی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں جواس پر واجب و ضروری نہ تھیں، تاہم شریعت نے اس سلسلہ میں فریقین کو بالکل آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ وہ معاملہ کو جس طرح سے چاہیں طے کرلیں بلکہ معاملہ کی روح اور مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے نیز دونوں کی فطرت و صلاحیت کے پیش نظر ایک گونہ پابندی لگادی ہے تاکہ کمزور فریق کا استحصال نہ ہوسکے اور اس کی مجبوری سے بے جا فائدہ اٹھانے پر بند لگایاجاسکے۔ اس اعتبار سے عقد نکاح میں لگائی جانے والی شرطیں تین طرح کی ہیں:
1-وہ فرائض و ذمہ داریاں جو خود عقد نکاح کی وجہ سے عائد ہورہی تھیں انھیں کو شرط کی شکل میں ذکر کردیا جائے مثلاً عورت یہ شرط لگائے کہ شوہر رکھ رکھاؤ اور برتاؤ میں اس کے ساتھ عمدہ سلوک کرے گا، اس قسم کی شرط بالاتفاق معتبر ہے۔ اگر بصورت شرط نہ بھی ذکرکیا جاتا جب بھی اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوتا، ہاں شرط لگانے کی وجہ سے مزید تاکید پیدا ہوجائے گی۔(فتح الباری 272/9)
2-ایسی شرطیں جن کا مقصد نکاح سے پیدا ہونے والی کسی ذمہ داری سے گریز ہو بقول ابن رشد’’جو نکاح صحیح ہونے کی شرطوں میں سے کسی کو ختم کردیتی ہوں یا نکاح کے واجب احکام میں تبدیلی کو مستلزم ہوں‘‘(بدایۃ المجتہد59/2 )مثلاً یہ شرط لگانا کہ شوہر نفقہ کا ذمہ دار نہ ہوگا یا مہر ادا نہیں کرے گا یا عورت کی طرف سے یہ شرط کہ شوہر اس سے ہم بستری نہیں کرے گا یا اس کی سوکن کی بہ نسبت اس کے یہاں زیادہ رہے گا۔ایسی شرط بالاتفاق نامعتبر ہے(فتح الملک المعبود32/3) مگر کیا اس شرط کی وجہ سے عقد نکاح کی صحت پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟
اس سلسلہ میں فقہاء کے یہاں قدرے اختلاف ہے، احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نکاح شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتا ،گرچہ شرط کو عقد کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ شرط فاسد کی وجہ سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے لیکن اگر اس کے باوجود یکجائی ہوجائے تو نکاح صحیح اور شرط باطل ہے ۔ شوافع اور حنابلہ کے یہاں کچھ تفصیل ہے ، بعض شرطوں کی وجہ سے وہ نکاح کو فاسد قرار دیتے ہیں اور بعض کی وجہ سے نہیں۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ 53/7 )
3-وہ شرطیں جو مذکورہ دونوں قسموں میں شامل نہیں بلکہ مباح اور جائز ہیں لیکن اس کی وجہ سے ایک فریق پر ایسی پابندی عائد ہوجاتی ہے جو غیر مشروط نکاح کی صورت میں عائد نہیں ہوتی جیسے عورت کی طرف سے یہ شرط کہ شوہر اس کو لے کر سفر میں نہیں جائے گا، اس کے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کرے گا، اس کو میکے ہی میں رہنے دے گا، اپنے گھر لے جانے پر مجبور نہیں کرے گا وغیرہ۔ اس قسم کی شرطوں کے بارے میں ائمہ کے درمیان قدرے اختلاف ہے، احناف کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے علامہ کاسانی رقم طراز ہیں:
ان ما شرط الزوج من طلاق المرأۃ وترک الخروج من البلد لایلزمہ فی الحکم لأن ذلک وعد وعدلھا فلا یکلف بہ ۔
عورت کو طلاق دینے اور شہر سے نکلنے کی شرط کی تکمیل قضاء شوہر کے لیے ضروری نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ عورت سے کیا ہوا ایک وعدہ ہے ، جس کے پورا کرنے کا وہ مکلف نہیں۔(بدائع 285/2 ، نیز دیکھئے العرف الشذی مع الترمذی 216/2، عمدۃ القاری 140/20)
ابو عبید شافعی کی بھی یہی رائے ہے۔( فتح الباری 273/9) لیکن امام شافعی کا خیال ہے کہ یہ شرط لغو ہے اور نکاح مہر مثل کے ساتھ درست ہے۔ (شرح نووی علی مسلم 455/1)
فقہاء مالکیہ کہتے ہیں کہ ایسی شرطیں کراہت سے خالی نہیں ان کی تعمیل صرف مستحب ہے (الفقہ الاسلامی 60/7) تاہم یہ تینوں حضرات اس پر متفق ہیں کہ عورت کو اس کی وجہ سے فسخ نکاح کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں ہوگا، صحابہ میں حضرت علیؓ بھی اسی کے قائل ہیں۔ عطاء، شعبی، زہری، قتادہ ، ہشام بن عروہ، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی، حسن بصری، ابن سیرین ربیعہ، ابوالزناد، لیث اور سفیان ثوری کی بھی یہی رائے اور مسلک ہے۔
اس کے برخلاف حضرت عمرؓ، سعد بن ابی وقاص، عمروبن العاص اور حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں کہ شرط کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے، عدم تعمیل کی صورت میں عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف بھی یہ رائے منسوب ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز ، جابر بن زید، طاؤس، ابوالشعثاء، اوزاعی، امام احمدبن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور بعض مالکیہ بھی اسی کے قائل ہیں.( مصنف عبدالرزاق 224/6 مصنف ابن ابی شیبہ 199/4 ، شرح السنہ 54/9، فتح الباری173/9، عمدۃ القاری 140/20، المغنی 71/7، فقہ السنہ 181/2 .و بعض المالکیہ ساروا سارھم ، امام احمدبن حنبل /346 لا بی زہرہ)
ماضی قریب یا حال کے محققین علماء میں استاذ ابوزہرہ، شیخ مصطفیٰ زرقاء، وھبہ زحیلی اسی خیال کے حامی اور مؤیدہیں۔(امام احمد بن حنبل 351، المدخل 486/1، الفقہ الاسلامی وادلتہ 60/7)
فریق اول کے دلائل
جو حضرات شرط کو لازم اور ضروری نہیں سمجھتے یا اس کی وجہ سے فسخ نکاح کا حق نہیں دیتے وہ درج ذیل احادیث و آثار سے استدلال کرتے ہیں۔
1-اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کل شرط لیس فی کتاب اللہ فھو باطل.
ہروہ شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں باطل ہے۔(بخاری 377/1)
معلوم ہوا کہ جو شرطیں اللہ کی کتاب اور اس کے مقتضیٰ کے مطابق نہیں ، وہ باطل ہے ، مذکورہ شرائط بھی اسی قبیل کی ہیں کیونکہ قرآن نے اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں لگائی ہے جبکہ شرط کی وجہ سے شوہر کو پابند ہونا پڑتاہے۔
2-ایک دوسری حدیث میں ہے :
المسلمون علی شروطھم الا شرطا احل حراما او حرم حلالا ۔
مسلمانوں کے معاملات طے شدہ شرطوں کے مطابق انجام پذیر ہوںگے، سوائے ان شرطوں کے جو کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرتی ہیں۔(رواہ ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی و قال حسن صحیح)
طریقہ استدلال یہ ہے کہ چونکہ شرط لگانے کی وجہ سے ایک حلال چیز یعنی دوسری شادی یا ساتھ سفرمیں لے جانا وغیرہ حرام ہوجاتی ہے ، اس لیے ایسی شرط حدیث کی رو سے ناقابل وفا ہے۔
3-حضرت علیؓ سے اس عورت کے متعلق دریافت کیا گیا جس نے عقد کے وقت میکے میں رہنے کی شرط لگادی تھی تو آپ نے فرمایاکہ شوہر کو وہاں سے لے جانے کا حق حاصل ہے کیونکہ اللہ کی شرط عورت کی شرط پر مقدم ہے۔(مصنف عبدالرزاق 231/6، مصنف ابن ابی شیبہ 201/4، المحلی 125/9، ترمذی 214/1)
4-چونکہ ایسی شرط عقد کی مصلحت اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے اس کو پورا کرنا لازم نہیں۔(شرح مہذب 250/16)
5-حضرت عمرؓ سے منقول روایتوں میں تضاد ہے ، اس لیے اس سے استدلال
درست نہیں، چنانچہ ابن وہب بہ "سند جید” روایت کرتے ہیں کہ کسی عورت نے نکاح کے وقت یہ شرط لگادی تھی کہ وہ میکے میں ہی رہے گی ، بعد میں شوہر نے وہاں سے لے جانا چاہا، مقدمہ حضرت عمر کی عدالت میں پیش ہوا، آپ نے شرط کا کوئی اعتبار نہیں کیا اور فیصلہ کیا کہ عورت شوہر کے ساتھ رہے گی ، وہ جہاں لے جانا چاہے لے جاسکتاہے۔(فتح الباری 272/9)
6-حدیث:
ان أحق الشروط ان یوفی بھا ما استحللتم بھا الفروج۔
میں شرط سے مراد مہر ہے یا وہ ذمہ داریاں ہیں جو عقد نکاح کی وجہ سے خود لازم اور ضروری ہوجاتی ہیں۔(مرقاۃ 421/3)
دوسرے فریق کے دلائل
جو حضرات شرط کی تکمیل کو لازم اور ضروری سمجھتے ہیں اور عدم تعمیل کی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا حق دیتے ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں:
1-قرآن کریم میں عہد اور وعدہ کو پورا کرنے کا حکم دیاگیاہے، چنانچہ ارشادباری ہے:
یاایھاالذین آمنوا أوفوا بالعقود.
ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔(سورہ مائدہ : 1)
آیت میں "عقود” سے مراد عہد اور وعدے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس، مجاہد، ابن جریج ، ابوعبیدہ اور متعدد دیگر لوگوں سے آیت کی یہی تفسیر منقول ہے اور ظاہر ہے کہ شرط بھی ایک عہد اور وعدہ ہے چنانچہ جصاص رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وکذالک کل شرط شرطہ انسان علی نفسہ فی شیء فی المستقبل فھو عقد.
ایسے ہی آئندہ کسی کام کے متعلق انسان اپنے اوپر جو شرط عائد کرلے وہ عقد ہے۔(احکام القرآن 286/3)
پھر آگے وہ اس آیت کے تقاضا پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’انسان جو شرط قبول کرلے اس آیت کے مطابق اس کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے الا یہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل موجود ہو‘‘(احکام القرآن 285/3)
ایک دوسری آیت میں ہے:
واوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولا۔
عہد کو پورا کرو اس کے متعلق بازپرس ہوگی۔(سورہ بنی اسرائیل: 34)
یہ عہد عام ہے کہ اللہ سے کیا گیا ہو یا بندے سے ، گرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاھروا علیکم احدا فأتموا الیھم عھدھم الی مدتھم ان اللہ یحب المتقین۔
مگر وہ مشرکین اس حکم میں شامل نہیں جن سے تم نے عہد کیا ہے پھر انھوں نے اس عہد کے نباہنے میں کوتاہی نہیں کی اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد نہیں کی ۔ سو ان کا معاہدہ مدت مقررہ تک پورا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو پسند کرتاہے۔(سورہ توبہ: 4)
اس طرح کی اور بہت سی آیتیں ہیں جن میں وفاء عہد کا حکم دیاگیاہے اور بدعہدی پر وعید سنائی گئی ہے ، شرط بھی ایک طرح سے عہد ہے لہٰذا اس کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے۔
2-حدیث میں بدعہدی نفاق کی علامت بتلائی گئی ہے ، بہت سی ایسی حدیثیں ہیں جس میں اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے وفاء عہد کا حکم دیا اور خلاف عہد کرنے کی سخت مذمت بیان فرمائی اور شدید وعیدوں سے خبردار کیا۔
3-نکاح کے معاملہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے بصراحت فرمایا:
احق الشروط ان توفوا بہ ما استحللتم بہ الفروج .
تعمیل کی مستحق سب سے زیادہ وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعہ تم عصمتوں کو حلال کرتے ہو۔(بخاری مع فتح الباری 217/9، مسلم 455/1)
معلوم ہوا کہ دیگر شرطوں کی بہ نسبت عقد نکاح میں لگائی جانے والی شرط زیادہ لائق وفا ہے۔
4-حضرت عمرفاروق نے ایک موقع پر فیصلہ فرمایاکہ شوہر کے لیے شرط کو پورا کرنا ضروری ہے ، ورنہ عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہوگا، شوہر نے اعتراض کیاکہ پھر مردوں کی طلاق کا کیا حاصل؟ (اذاً تطیقنا) حضرت عمرؓ نے جواب میں یہ قانونی جملہ ارشادفرمایا:
’’مقاطع الحقوق عند الشروط‘‘(بخاری مع الفتح 217/9، مصنف عبدالرزاق)
5-قرآن پاک سے یہ ثابت ہے کہ معامات میں اصل بنیاد”رضا” ہے۔ لہٰذا جس شرط پر فریقین راضی ہوں اور عقد کے مقصد و روح کے مغائر نہ ہو ، نیز اس کی وجہ سے شریعت کے متعین کردہ حدود نہ ٹوٹتے ہوں تو وہ جائز اور لازم ہے۔
6-معاملات میں اصل ’اباحت‘ ہے ۔ اس پر تقریباً تمام فقہاء کا اتفاق ہے صرف ظاہریہ حظر کے قائل ہیں (مبدأ الرضاء فی العقود/1186) اور عبادات میں اصل ’ممانعت و حظر‘ ہے کہ صرف وہی چیزیں لازم و ضروری ہوں گی جسے شریعت نے فرض و واجب قرار دیا ہے ، اپنی طرف سے کسی چیز کو فرض وواجب قرار دینا درست نہیں لیکن اس کے باوجود عبادات میں "نذر” کی صورت میں شرط لگانے کی اجازت دی گئی ہے کہ جو چیز ذمہ میں واجب نہ ہو اسے "نذر” کے ذریعہ واجب کرلے، جب عبادات -جس میں اصل ممانعت ہے-میں شرط کی اجازت ہے اور اس کی تکمیل لازم و ضروری ہے تو معاملات جس میں اصل اباحت ہے- میں بدرجہ اولیٰ اس کی تکمیل ناگزیر ہوگی۔
7-یہ ایسی شرطیں ہیں جو نکاح کے منشا و مقصد کے منافی نہیں، ایک جائز منفعت اس سے وابستہ ہے۔ لہٰذا جس طرح زیادتی مہر کی شرط لازم ہے ، اسی طرح سے یہ شرائط بھی ضروری اور اس کی تعمیل واجب ہے۔( دیکھئے :فتاویٰ کبری329/3 لابن تیمیہ، اعلام الموقعین 402/3 ، المغنی 71/7-72 )
دلائل کا ایک جائزہ:
1-واقعہ ہے کہ فریق اول کی طرف سے پیش کردہ دلائل میں حضرت علیؓ کے اثر کے علاوہ کوئی صریح نہیں ہے، اس قسم کی شرطوں کو "تحریم حلال” قرار دینا مشکل ہے کیونکہ شرط کی وجہ سے یقینی طور پر حلال چیز حرام نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اس شرط کی خلاف ورزی کی اب بھی اجازت ہے، وہ لازم و ضروری اس معنی میں ہے کہ اس کے خلاف کرنے کی وجہ سے عقد کو ختم کرنے کا حق ملتا ہے، نیز کسی چیز کو لازم و ضروری قرار دینے اور اس کو حرام کرلینے میں نمایاں فرق ہے۔ ابن قدامہ اپنے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قلنا لایحرم الحلال وانما یثبت للمرءۃ خیار الفسخ ۔
ہم کہتے ہیں کہ شرط کی وجہ سے حلال چیز حرام نہیں ہوجاتی ہاں اس کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔(المغنی71/7)
نیز ’’الاقناع‘‘ میں ہے:
فھذا صحیح لازم للزوج بمعنی ثبوت الخیار لھا بعدمہ ولا یجب الوفاء بہ بل یسن ۔
تو یہ شرط صحیح ہے، شوہر کے لیے لازم ہے اس معنی کرکہ شرط کو نہ نباہنے کی وجہ سے عورت کو اختیار ملے گا اور شرط کے مطابق عمل کرنا واجب نہیں بلکہ مسنون ہے۔(الاقناع 190/3نیز دیکھئے الروض المربع/340)
2-حدیث "کل شرط لیس فی کتاب اللہ” سے مراد وہ شرطیں ہیں جو قواعد شریعت اور معاملہ کے مقصد و روح سے میل نہ کھاتی ہوں، علماء محققین نے حدیث کی یہی تشریح کی ہے (المدخل 470/1 )چنانچہ علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں:
"لیس فی کتاب اللہ” ای لیس مشروعا فیہ تاصیلاً وتفصیلا ومنھا ما اصل اصلہ کدلالۃ الکتاب علی اصلیۃ السنۃ والاجماع والقیاس .
"لیس فی کتاب اللہ” سے مراد وہ شرطیں ہیں جو قرآن میں نہ باعتبار اصل مذکور ہوں اور نہ باعتبار تفصیل اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کی اصل ہونے پر اللہ کی کتاب میں دلیل موجود ہو جیسے کہ سنت و اجماع اور قیاس۔(فیض القدیر 22/5للمناوی رقم الحدیث :6313 )
مذکورہ حدیث جس پس منظر میں کہی گئی ہے وہ بھی اس توجیہ کی مؤید ہے کہ حضرت بریرہ ایک باندی تھیں، حضرت عائشہ نے چاہا کہ انھیں ان کے مالک سے خرید کر آزاد کردیں، وہ بیچنے پر راضی تو ہوگئے لیکن شرط لگادی کہ ’’حق ولاء‘‘(غلام یا باندی کو آزاد کرنے کی وجہ سے بعض صورتوں میں آزاد کرنے والا ان کا وارث ہوتاہے، اسی کو’’حق ولاء‘‘ کہتے ہیں) انہیں کو ملے گا اللہ کے رسول ﷺ کو جب اس صورت حال کی اطلاع ملی تو آپ نے برہمی ظاہر کی اور ارشاد فرمایا:
’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں جو شخص ایسی شرطیں لگائے جو اللہ کی کتاب میں مذکور نہ ہوتو وہ معتبر نہیں، اگرچہ وہ سو شرطیں لگادے۔(صحیح بخاری 65/1)
ظاہرہے کہ یہ شرط مقصد شریعت کے خلاف ہے .’’حق ولاء‘‘ سے شریعت کا مقصد یہ ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ غلاموں کی آزادی کی طرف راغب ہوں، اگر فروخت کے باوجود بھی یہ حق ملتا رہے تو مقصد ہی باقی نہیں رہے گا ، لوگوں کی توجہ آزادی سے ہٹ کر فروختگی پر مبذول ہوجائے گی کیونکہ اس صورت میں دوہرے فائدہ کا امکان ہے، غلام کی قیمت تو ملے گی ہی ، شرط لگاکر ’’حق ولاء‘‘ کو بھی محفوظ کرلیں۔ علاوہ ازیں ’’ولاء‘‘ شریعت کی نظرمیں ایک رشتہ ہے ، فروخت کرنے یا بخشنے کی چیز نہیں ہے کہ معاہدہ کے ذریعہ دوسرے کو بخشا جاسکے، اس کا حقدار تو وہی ہوگا جس نے اسے آزاد کیاہے، چنانچہ ارشادنبوی ہے:
الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب لایباع ولایوھب ۔
’’ولاء‘‘ نسبی رشتہ کی طرح ہے ، نہ اسے بیچا جاسکتاہے اور نہ ہبہ کیاجاسکتاہے۔(الجامع الصغیر 723/2حدیث: 9687نیزدیکھئے فیض القدیر 377/6)
لہٰذا جس طرح سے نسبی رشتے معاہدہ اور شرط کی بنیاد پر تبدیل نہیں کیے جاسکتے اسی طرح سے حق ولاء کو بھی دوسرے کی طرف منتقل نہیں کیا جاسکتا، اس کا حقدار تو وہی ہوگا جس نے اسے آزاد کیاہے۔
3-حدیث ’’ان احق الشروط‘‘ کی یہ توضیح کہ اس سے مراد مہر یا وہ فرائض و ذمہ داریاں ہیں جو عقدنکاح کی وجہ سے عائد ہوتی ہیں، ظاہر حدیث کے خلاف ہے ، چنانچہ مشہور محدث ابن دقیق العید شافعی فرماتے ہیں:
’’وہ فرائض و ذمہ داریاں جو تقاضاء عقد میں شامل ہیں ان کو واجب قرار دینے میں شرط مؤثر نہیں ہے تو پھر ان شرطوں کے لگانے پر حکم کو معلق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور حدیث کا سیاق بھی اس کے خلاف تقاضا کرتا ہے، اس لیے کہ لفظ ’’احق الشروط‘‘ کا تقاضا ہے کہ بعض شرطیں قابل وفا ہیں اور بعض زیادہ قابل وفا ہیں اور جو شرطیں واجبات عقد میں سے ہیں وہ لازم وفا ہونے میں برابرہیں۔(فتح الباری 272/9)
4-دوسرے فریق کی طرف سے پیش کردہ دلائل میں بھی صحابہ کرام کے اقوال کے علاوہ کوئی صریح نہیں ہے ، ان آثار میں بھی حضرت عمرؓ سے منقول فیصلوں میں اختلاف ہے، دونوں روایتیں صحیح ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا مشکل ہے ، صحابہ کرام کے ارشادات اور فیصلہ جات کے علاوہ دلائل سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ وفاء عہد لازم اور ضروری ہے ۔ یہ صراحت نہیں کہ اس کی وجہ سے عقد کو فسخ اور ختم بھی کیاجاسکتاہے۔
5-اس سلسلہ میں احناف کا جو نقطۂ نظر ہے کہ شرط وعدہ ہے ، دیانتاً اس کی تکمیل لازم و ضروری ہے وہی قرآن و حدیث سے زیادہ قریب ہے۔( والشروط التی لا تنافی النکاح جائزۃ وتوفی دیانۃ ولا تلزم قضاء۔ العرف الشذی مع الترمذی 216/1)
تاہم دین سے دوری بلکہ دین بیزاری کے اس پرآشوب ماحول میں جہاں اخلاقیات کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ،نیز اس طرح کے معاملات میں شرط کی عدم تکمیل کی وجہ سے معاشرہ میں طرح طرح کی برائیاں اور خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسے صرف اخلاقی حیثیت تک محدود نہ رکھاجائے بلکہ قانونی اعتبار سے بھی شرط کو پورا کرنے پر مجبور کیاجائے، اگر شوہر اس کے لیے تیار نہ ہو تو نکاح کو فسخ کردیاجائے، کیونکہ لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر قانونی نقطہ نظر سے وعدہ کی تکمیل لازم ہوجاتی ہے ۔ حصکفی لکھتے ہیں:
لان المواعید قد تکون لازمۃ لحاجۃ الناس
وھو الصحیح۔
لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے وعدے کبھی قانونی طور پر بھی لازم ہوجاتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔(الدرالمختار 247/4)
یا عورتوں کے درمیان تفویض کے حکم کو متعارف کرایا جائے کہ وہ عقد کے وقت یہ کہہ دیں کہ اگر شوہر اس شرط کی خلاف ورزی کرے گا تو انہیں اس رشتہ کو ختم کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
تفویض طلاق:
اللہ نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے تاہم اگر وہ چاہے تو اس حق کو بیوی کے سپرد کرسکتاہے جسے اصطلاح میں تفویض کہتے ہیں(الفقہ الاسلامی واداتہ 414/7)
’’تفویض‘‘ کی مختلف صورتیں ہیں : کبھی وقت اور شرط وغیرہ کی کوئی تحدید نہیں ہوتی مطلقاً کہہ دیاجاتاہے کہ معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے [أمرک بیدک] اس صورت میں عورت کو اپنے آپ کو طلاق دینے کا اختیار صرف مجلس تک باقی رہے گا، مجلس کے بدل جانے سے یہ اختیار ختم ہوجائے گا لیکن اگر یہ کہہ دے کہ ’’معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے جب بھی تو چاہے‘‘(امرک بیدک متی شئت أو اذا شئت) اس صورت میں پوری زندگی عورت کو یہ اختیار حاصل رہے گا، تاآنکہ وہ خود ہی اس اختیار کو ختم کردے، اگر اختیار کے لیے کوئی مدت متعین کردیتاہے مثلاً’’آج کے دن تجھے اپنے اوپر طلاق دینے کا اختیار ہے‘‘ تو مکمل ایک دن تک یہ اختیار برقرار رہے گا، اگر مشروط تفویض ہو مثلاً ’’فلاں آگیا تو تیرا معاملہ تیرے اختیار میں ہے‘‘ تو اس کی بھی وہی صورتیں اور احکام ہیں جو مذکور ہوئیں۔(دیکھئے :بدائع 113/2-116)
تفویض کب درست ہے؟:
’’تفویض‘‘عقد کے وقت بھی درست ہے اور عقد کے بعد بھی، لیکن عقد کے وقت تفویض کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ مطالبہ عورت کی طرف سے ہو اور شوہر اسے قبول کرلے مثلاً مرد ایجاب کرے اورعورت جواب میں کہے کہ میں اس شرط پر قبول کرتی ہوں کہ طلاق کا اختیار میرے ہاتھ میں رہے گا اور مرد اس کو مان لیتا ہے،اگر مرد ایجاب بایں طور کرتا ہے کہ میں تم سے شادی اس شرط پر کرتاہوں کہ طلاق کا اختیار تمہارے ہاتھ میں رہے گا اور عورت قبول کرلیتی ہے تو یہ درست نہیں۔ علامہ ابن عابدین شامی دونوں کے فرق کی وضاحت فقیہ ابواللیث کے حوالے سے ان الفاظ میں کرتے ہیں:
ابتداء جب شوہر کی طرف سے ہو تو یہ طلاق اور تفویض نکاح سے پہلے ہے لہٰذا درست نہیں اور جب ابتداء عورت کی طرف سے ہو تو یہ تفویض نکاح کے بعد ہے ، اس لیے کہ جب مرد نے عورت کے کلام کے بعد کہا (قبلت)میں نے قبول کیا اور جواب میں سوال ملحوظ ہوا کرتا ہے تو گویا اس نے کہاکہ میں نے قبول کیا اس شرط پر کہ تیری طلاق یا اس پر کہ معاملہ تیرے اختیار میں ہو، تو یہ معاملہ نکاح کے بعد عورت کے اختیار میں ہوگا۔(ردالمحتار244/3، مطبوعہ ایم سعید کمپنی، پاکستان)
اگر عقد سے پہل ہی تفویض کی شرط طے ہوجائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ شوہر ابھی اس کا مالک ہی نہیں ہوا ہے تو جس چیز کا وہ خود مالک نہیں دوسرے کو کیسے مالک بنا سکتاہے؟ البتہ اگر تفویض اس طرح ہوکہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا تو اپنی طلاق کی مختار ہوگی تو یہ درست ہے ، کیونکہ تفویض طلاق ہی کی طرح ہے کہ جس طرح نکاح سے پہلے طلاق اضافی درست ہے، ایسے ہی تفویض اضافی بھی درست ہے۔
حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
اس کی تینوں صورتیں جائز ہیں، چاہے نکاح سے پیشتر لکھوا لیا جائے ، چاہے عین وقت عقد زبان سے کہلوا لیاجائے، چاہے بعد میں لکھوا لیا جائے، مگر پہلی اور دوسری صورت کے صحیح اور معتبر ہونے کے لیے ایک شرط ہے ، پہلی صورت یہ کہ کابین نامہ نکاح سے پہلے لکھا جاوے اس کے معتبر اور مفید ہونے کے لیے یہ شرط ہے ، اس میں نکاح کی طرف اضافت اور نسبت موجود ہو۔
مثلاً یہ لکھا جائے کہ اگر میں فلاں بنت فلاں کے ساتھ نکاح کروں اور پھر شرائط مندرجہ اقرار نامہ ہذا میں سے کسی شرط کے خلاف کروں تو مسماۃ مذکورہ کو اختیار ہوگا کہ اسی وقت یا پھر اور کسی وقت چاہے تو اپنے اوپر ایک طلاق بائن واقع کرکے اس نکاح سے الگ ہوجائے، اگر اس میں اضافت الی النکاح نہ لکھی گئی تو یہ اقرار نامہ محض بیکار ہوگا، اس کی رو سے عورت کو کسی قسم کا اختیارحاصل نہ ہوگا، دوسری صورت یہ کہ عین ایجاب و قبول ہی میں زبانی شرائط مذکور ہوں، اس کے صحیح اور معتبر ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ ایجاب عورت کی جانب سے ہو۔(الحیلۃالناجزہ/21)
مشروط تفویض:
عورتوں کی فطری جلدبازی کے پیش نظرمناسب ہے کہ مطلق تفویض نہ کی جائے بلکہ احتیاطاً کچھ قیود و شرائط کا لگادینا بہترہے، اسی فطری کمزوری کے پیش نظراللہ کے رسول ﷺ نے ’’تخییر‘‘ کے موقع پر حضرت عائشہ سے فرمایا: عائشہ! فیصلہ میں جلدبازی نہ کرنا ، اپنے والدین سے مشورہ کے بغیر کوئی اقدام نہ کرنا۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک موقع پر ازواج مطہرات نے آپ ﷺ سے معاشی تنگی کی شکایت کی اور مطالبہ کیاکہ ہمارے نان و نفقہ میں کچھ توسیع سے کام لیاجائے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
’’یاایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراجا جمیلا(سورہ الاحزاب:28) اس آیت میں ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا کہ وہ موجودہ حالت یعنی معاشی عشرت و تنگی کے ساتھ آپ کی زوجیت میں رہنا قبول کریں یا پھر طلاق کے ساتھ آزاد ہوجائیں ، اس کو "تخییر” کہاجاتاہے(معارف القرآن ج7ص127) لہٰذا تفویض کے ساتھ احتیاط کے لیے مزید کچھ شرطیں بڑھائی جاسکتی ہیں مثلاًیہ کہ طلاق کا اختیار اسی وقت ہوگا جب کہ عورت کے والدین بھی اسی پر راضی ہوں وغیرہ۔ حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
چونکہ عورت ناقص العقل ہے، اس لیے طلاق کو مطلقاً اس کے ہاتھ میں دینا خطرہ سے خالی نہیں، پس مناسب ہے کہ تفویض میں کوئی قید مناسب بھی لگادی جائے جس میں خطرہ نہ رہے مثلاً نکاح کے وقت عورت کی طرف سے وہ خود یا اس کا ولی یا وکیل (یعنی قاضی، نکاح خواں) یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو یا مسماۃ بنت فلاں کو تمہارے نکاح میں اس شرط پر دیا کہ جس وقت اس کو تم سے کوئی تکلیف شدید پہنچے گی جس کو فلاں فلاں اشخاص میں سے کم از کم دو آدمی تسلیم کرلیں تو اس کے بعد ہر معاملہ میرے یا اس کے اختیار میں ہوگاکہ اپنے آپ کو طلاق بائن دے کر اس نکاح سے علاحدگی اختیار کرلی جائے، اس صورت میں طلاق کا اختیار عورت کے ہاتھ میں اس وقت آئے گا جب کہ تسلیم کردہ اشخاص میں سے کم از کم دو آدمی تسلیم کرلیں کہ تکلیف شدید ہے۔(الحیلۃ الناجزہ:24)
مشروط مہر:
طلاق کے بے جا استعمال کو روکنے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے عقد کے وقت شرط لگادی جائے کہ اگر شوہر طلاق دے گا تو مہر مثلاً بیس ہزار ہے اور اگر طلاق نہ دے تو دس ہزار ہے، ایسی صورت میں طلاق دینے کی صورت میں امام ابوحنیفہ کے نزدیک نقطہ نظر کے مطابق مہرمثل ہے اور امام ابویوسف و محمد کی رائے کے مطابق معین کردہ مہر یعنی بیس ہزارلازم ہے۔ چنانچہ علامہ سرخسی رقم طراز ہیں:
اگر کوئی نکاح اس طور پر کرے کہ اس کی کوئی بیوی نہ ہو تو ایک ہزار درہم ہے اور اگر ہے تو دوہزار یا اگر کوفہ سے نہ لے جائے تو ایک ہزار اور بصورت دیگر دوہزار تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک دونوں صورتوں میں پہلے طلاق دے تو جس مہر کا تذکرہ کیا ہے ، وہ صحیح ہے اور دوسرا فاسد ہے، یہاں تک کہ اگر یکجائی سے پہلے طلاق دے دے تو جس مہر کا تذکرہ پہلے ہواہے ، اسکا آدھا مہر ادا کرے اور اگر یکجائی ہوجائے اور شرط کو بھی پورا کردے تو ایک ہزار سے زیادہ نہ ہو اور ابویوسف و محمد کے نزدیک دونوں شرطیں معاہدہ کے مطابق جائز ہیں۔
گرچہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کی رائے امام ابویوسف و محمد سے مختلف ہے، لیکن دلیل کے اعتبار سے صاحبین کی رائے قوی ہے، نیز حالات کا تقاضا بھی یہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ نے امام ابویوسف و محمد ہی کے مذہب کو اختیار کیاہے۔(المبسوط 5/9، الاحوال الشخصیہ /155)
طلاق ہی کی طرح دوسری شادی کا مسئلہ ہے کہ اگر عقد میں یہ شرط لگادی جائے کہ اگر مرد نے اس عورت کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کی تو مہر بیس ہزار ہوگا بصورت دیگر دس ہزار تو ایسی صورت میں امام ابویوسف و محمد کے مسلک کے مطابق دونوں شرطیں معتبرہوں گی اور دونوں صورتوں میں متعین کردہ مہر لازم آئے گا۔
واضح رہے کہ ان دونوں مسئلوں میں امام ابویوسف و محمد کی رائے پر فتویٰ دیتے وقت کچھ شرائط کا اضافہ بھی ضروری ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے جس مقصد کے تحت اسلام نے طلاق یا تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے وہ مقصد ہی فوت ہوجائے اور شرط کی وجہ سے مرد بالکل پابند ہوکر رہ جائے گا اور ناگزیر ضرورت کے وقت بھی رقم ادا نہ کرنے کی پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے طلاق نہ دے سکے، زندگی بالکل تلخ اور اجیرن بن کر رہ جائے، طرح طرح کی خرابیاں اور بگاڑ پیدا ہوں جس کو ختم کرنے کے لیے شریعت نے طلاق کی اجازت دی ہے۔
ملازمت پیشہ عورت:
’’مشروط نکاح‘‘ کے ذیل میں یہ تفصیل گذرچکی ہے کہ مباح شرطوں کے بارے میں امام شافعی کا نقطہ نظریہ ہے کہ شرط لازم نہیں، حنفیہ کے نزدیک یہ ایک وعدہ ہے ، دیانتا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو نباہے،اور اس کے مطابق عمل کرے۔ اگر شوہر ایسانہیں کرتا تو اسے مجبور نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی اس کی وجہ سے عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہوگا۔
کاسانی رقم طراز ہیں:
شوہر کا یہ شرط لگانا کہ وہ اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے گا یا اس عورت کو اس کے شہر سے نہیں لے جائے گا تو یہ قضاء ً لازم نہیں ، اس لیے کہ یہ ایک وعدہ ہے جو شوہر نے اس سے کیاہے، لہٰذا اس پر مجبور نہیں کیاجائے گا۔(بدائع 285/2)
لہٰذا اگرکوئی عورت نکاح کے وقت شرط لگائے کہ آئندہ کوئی مناسب ملازمت ملے تو اس سے منع نہیں کرے گا اور اس شرط کو شوہر قبول کرلیتا ہے ، اس کے باوجود اسے روکنے کا حق ہے اور عورت کے لیے شوہر کے حکم کی تعمیل ضروری ہوگی، اگرعورت شوہر کی رضامندی کے بغیر ملازمت پرلگی رہی تو ’’ناشزہ‘‘ سمجھی جائے گی اور نفقہ کی حقدار نہیں ہوگی۔(الفقہ الاسلامی واداتہ 792/7 کتاب النفقہ)
چنانچہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
اگر عورت صرف دن میں شوہر کے ساتھ رہے اور رات میں رفاقت نہ ہو یا اس کے برعکس تو وہ نفقہ کی مستحق نہ ہوگی، اس لیے کہ سپردگی ناقص ہے ، اس سے ہمارے دور کے اس مسئلہ کا حل بھی نکل آیا جبکہ شادی کسی پیشہ سے متعلق عورت کے ساتھ ہو جو دن کا اکثر کارخانہ میں گزارتی ہے اور رات شوہر کے ساتھ بسرکرتی ہے ، اس کے لیے نفقہ نہیں ہے۔(البحرالرائق 180/2)
امام احمد کے مسلک کے مطابق شوہر کے لیے شرط کی تعمیل ضروری ہے، اسے روکنے اور منع کرنے کا حق نہیں، اگر سلسلہ ملازمت کو ختم کرنے پر مجبور کرتاہے تو عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے اور بلااجازت ملازمت کرتے ہوئے بھی ’’ناشزہ‘‘نہیں سمجھی جائے گی اور نان و نفقہ کی مستحق ہوگی ۔ وہبہ زحیلی ان کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حنابلہ نے اس شرط کو بھی صحیح قرار دیا اور اس شرط پر وفاء کو لازم گردانا۔ لہٰذا شوہر کو یہ حق نہیں کہ وہ عورت کو کام کرنے سے روک دے اور اگر روک لگادے تو وہ ’’نافرمان‘‘نہیں سمجھی جائے گی۔ (الفقہ الاسلامی 792/7)
(شائع شدہ: ترجمان دار العلوم دہلی ،نومبر 1995ء.)