مطالعہ قرآن کے اصول و مبادی:
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔
تلخیص
ولی الله مجید قاسمی☆
قرآن کا تعارف خود قرآن کی زبان سے
قرآن نے اپنے متعلق جو کچھ کہا ہے، اس سے قرآن کی مختلف خصوصیات اور حیثیتوں پر روشنی پڑتی ہے، اور اس کی عظمت و اعجاز کے بہت سے گوشے نظر کے سامنے آجاتے ہیں، ان مختلف اور منتشر آیتوں کو جمع کرنے سے جن میں قرآن نے خود اپنا تعارف کرایا ہے، قرآن کی معرفت کا ایک نیا دروازہ کھلتا ہے۔
قرآن کا علم قطعی ہے:
قرآن کی سب سے بڑی اور معجزانہ خصوصیت اس کا علم قطعی اور یقینی ہونا ہے، "ذالك الكتاب لا ريب فيه” ( یہ کتاب الہی ہے جس میں شک کا کوئی گذر نہیں )
قرآن کی اس خصوصیت میں کوئی انسانی کلام شریک نہیں ہے، اور نہ ہو سکتی ، اس لئے کہ اس کے نزول کا ذریعہ وحی الہی ہے جو ہر قسم کے عیب و نقصان، شک اور اختلاف سے پاک ہے، اس میں جو کچھ ہے وہ یقینی او قطعی ہے یکساں اور آخری ہے، اس کا علم تدریجی اور ترقی پذیر نہیں ہے، اس کا علم اس کی دوسری صفات کی طرح ابدی اور دائمی ہے، ( سورہ حدید ) اس کا علم ہر چیز کو حاوی اور محیط ہے (ع/۵) اس کے یہاں غلطی اور نسیان کا گذر نہیں (طٰہٰ ع-۲)اس کے علم سے کائنات کا کوئی ذرہ خارج نہیں (سبا ع-۱) خدا کی کتاب خدا کے علم سےماخوذ ہے، اس لئے وہ اس کی خصوصیات کی حامل اور اس کا مظہر ہے۔ (ھود: ع-۲) (اعراف ع-٦) اس لئے اس کتاب میں تعارض و اختلاف نہیں ، کیوں کہ متعارض و اختلاف جہل و ناواقفیت یا علم کی کمی بیشی یا نسیان و غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ ان نقائص سے پاک ہے۔ اس لئے اس کا کلام بھی ہرطرح کے اختلاف سے محفوظ ہے۔ (النساء: ع -۱)
قرآن محکم اور مفصل ہے:
یعنی دین کے اصول وکلیات میں اور اس علم میں جو انسان کی نجات اخروی اور فلاح دنیوی کے لئے ضروری ہے، وہ نہایت واضح اور متعین ہے۔ (انعام: ع٤١ ، اعراف: ع٦،ھود:ع١،يونس: ع٤)
لیکن اسلام میں دین کا وہ تنگ مفہوم نہیں ہے جو بہت سے اہل مذاہب نے اپنے مذہب کا قائم کر لیا ہے، یہاں انسان کے متعلق اصولی تخیل یہ ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور وہ اپنی زندگی کےکسی گوشہ میں اس کی دائمی غلامی سے آزاد نہیں ہے، یہاں مذہب و سیاست میں تفریق نہیں ہے۔
قرآن فرقان ہے:
اور یہ اس کی ایسی امتیازی صفت ہے جو اس کے نام کے قائم مقام ہو گئی ہے (فرقان: ع -۱) قرآن مجید نے ایمان و کفر ، اسلام اور جاہلیت ،حلال و حرام میں قیامت تک کے لئے جو امتیاز پیدا کر دیا ہے اس کی نظیر سے دیگر آسمانی صحیفوں کی تاریخ خالی ہے۔
(بقره: ع – ٤٣، انفال: ع -٤,٥)
قرآن کتب سابقہ کا نگراں ہے:
اس موقع پر تین باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں :
1_دین کے اصول و کلیات تمام آسمانی کتابوں میں مشترک ہیں۔
2_قرآن سے پہلے تمام صحیفے ایک محدود وقت کے لئے آئے تھے ، ان میں کوئی صحیفہ دائمی نہیں تھا۔
3_قرآن آخری اور دائی صحیفہ ہے، تمام اصول دین پر حاوی ہے، قیامت تک محفوظ رہے گا۔ (حجر: ع -۱)
ان چیزوں کو تسلیم کر لینے کے بعد یہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور ان کی اصل تعلیمات کی صحت کے لئے اس کی حیثیت سند اور معیار کی ہے، ان کتابوں کا وہ حصہ جو قرآن کے مطابق ہے وہ صحیح اور جو اس سے متعارض ہے وہ غیرمحفوظ ہے۔
قرآن سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (المائدہ: ع -۳) قرآن مجید زندگی اور اس کے تمام شعبوں میں جو ہموار اور بے اعتدالیوں سے پاک اور بے خطر راہیں کھولتا ہے اور سبل السلام ( سلامتی کے راستے) سے بہتر کوئی راہ ہو ہی نہیں سکتی ۔
قرآن مجید ایک آئینہ ہے:
جس میں مختلف عقائد و خیالات اور اخلاق و اعمال کے لوگ اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں، اس میں کہیں صراحتاً، کہیں اشارۃً، کہیں پچھلی قوموں اور اشخاص کے ذکر میں اور کہیں براہ راست ان کا تذکرہ موجود ہے۔
لقد أنزلنا إليكم كتاباً فيه ذكركم أفلا تعقلون (انبياء: ع -١)
"ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہےکیا تم نہیں سمجھتے؟ “
قرآن مجید کے اعجاز کا ایک اور پہلو:
قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے انھیں قوموں اور اشخاص کو ذکر کے لئے منتخب کیا جو اپنے مخصوص اعمال و اخلاق کی وجہ سے غیر فانی ہیں، جرائم میں بھی ان نادر الوقوع جرائم کا تذکرہ نہیں کیا گیا جو صدیوں میں انسان اپنی ذکاوت اور مجرمانہ ہنر مندی سے ایجاد کرتا ہے، اس نے انھیں افعال و جرائم کا ذکر کیا جو عامۃ الوقوع ہیں۔
اعجاز قرآنی:
قرآن مجید نے اپنے معجزہ ہونے کا دعویٰ خود کیا ہے، اور ان انسانوں کو جن کو اس کے کتاب الہی ہونے میں شک ہے مقابلہ کی دعوت دی ہے۔ (بقرہ: ع -۳، یونس : ع -٤، هود: ع -۲، بنی اسرائیل: ع -۱۰ قصص : ع -۵) مذکورہ آیتوں میں قرآن کا مثل لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور کوئی کتاب قرآن کی اس وقت تک مثل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے اعجاز کے تمام شعبوں میں اور اس کی تمام خصوصیات میں مماثل نہ ہو، اور قرآن صرف فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ نہیں ہے بلکہ اپنے معانی و مضامین، علوم و معارف اور معلومات غیبی اور پیش گوئی میں بھی معجزہ ہے، مگر جب صرف الفاظ میں جو اس کے اعجاز کا صرف ایک پہلو ہے کوئی مقابلہ نہیں ہو سکا تو اس کے اعجاز کامل میں کہاں مماثلت ہو سکتی ہے؟۔
قرآن مجید کا سب سے پہلا اور بڑا معجزہ اسلام ہے:
قرآن مجید نے دنیا میں مذہب کا ایک آخری ہدایت نامہ پیش کیا ہے جس سے زیادہ محکم او مفصل ہدایت نامہ دنیا میں آج تک پیش نہ ہو سکا، اس سے زیادہ انسان کو اپنے خالق سے مربوط کرنے والا ، اس کی زندگی میں روحانیت پیدا کرنے والا ، ان تمام گمراہیوں اور بے اعتدالیوں سے دور رکھنے والا جس میں مذہبی قومیں مبتلا ہیں کوئی ہدایت نامہ انسانی تصور کی گرفت میں نہیں آسکتا ہے، اسی طرح اس نے انسان کی اس زندگی کے لئے ایک اخلاقی و مدنی دستور عطا کیا جو دنیا میں بہترین اخلاقی و اجتماعی نتائج پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے اور اس نے پیدا کر دکھایا ہے جو کسی اور طریقہ پر آج تک ظہور پذیر نہیں ہوئے وہ چونکہ آخری ہے اس لئے ہر قسم کی تکمیل واضافہ سے بے نیاز ہے .وہ عالم گیر ہے، اس لئے قومی و مقامی خصوصیات سے پاک ہے۔ وہ دائمی ہے اس لئے ہر طرح کے تغیر سے آزاد ہے۔
قرآن کا دوسرا معجزہ اس کے علوم و معارف ہیں:
قرآن کا دوسرا معجزہ اس کے وہ بے پایاں علوم و معارف اور حقائق و اسرار ہیں جو اس کتاب میں پھیلے ہوئے ہیں، اور جن میں ہر ایک، ایک مستقل معجزہ ہے، انسان کا علم جتنا ترقی کرے گا، اور اس کی آنکھوں سے جتنے پردے اٹھتے جائیں گے، قرآن کا جمال اس کو بے نقاب نظر آئے گا، در حقیقت انسانی فہم کا ظرف تنگ ہے، قرآن کی وسعتوں کا تحمل نہیں ہے، اس لئے جو کچھ حصہ میں آئے غنیمت ہے:
"أنزل من السماء ماءً فسالت أودية بقدرها۔ "اس نے آسمان سے مینہ برسایا اور پھر اس سے اپنے اپنے اندازہ کے مطابق نالے بہہ نکلے۔ (رعد: ع ۲)
علم و تحقیق جدید کی تصدیق:
قرآن مجید میں جدید علمی سائنسی حقائق کو تلاش کرنا بڑا نازک اور کسی حد تک پر خطر کام ہے، اس لئے کہ اس کا قوی امکان ہے کہ علم وتحقیق کے یہ نتائج جو اس وقت بالکل ثابت شدہ حقائق سمجھے جارہے ہیں بالکل بدل جائیں، یا ان کا ثبوت مشکوک ہو جائے۔ ان سب کے باوجود ایک منصف مزاج شخص مطالعہ قرآنی کے وقت یہ حقیقت معلوم کر کے ششدر و حیران رہ جاتا ہے کہ اگر چہ یہ کتاب ایک اُمّی پر آج سے چودہ سو برس پہلے عرب کے محدود اور علمی دنیا سے منقطع ماحول میں نازل ہوئی تھی ، ان میں بڑی تعداد میں وہ حقائق ہیں جن کا تعلق تاریخ، جغرافیہ طبعیات، فلکیات، علم حیات اور طب سے ہے مشہور فرنچ فاضل مورس بوکائی لکھتے ہیں:
"ان علمی پہلوؤں سے جو قرآن کے ساتھ مخصوص ہیں ابتدا ہی میں مجھے حیران و ششدر بنا دیا ، میرے ذہن میں کبھی بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس کتاب میں جس پر تیرہ سو برس سے زیادہ مدت گزر چکی ہے، اتنی بڑی تعداد میں مختلف موضوعات سے تعلق رکھنے والے دعوے اور اعلانات ہوں گے، جن میں شدید تنوع پایا جاتا ہے اور وہ جدید علمی تحقیقات سے پورے طور پر مطابق پائے جائیں۔
اور یہ کہ:
توریت و انجیل کی ان تصریحات کے مقابلہ میں قرآن مجید کی تصریحات علم و تحقیق کے جدید ترین نتائج سے مطابقت میں بالکل منفرد اور ممتاز ہیں”۔
قرآن کا تیسرا معجزہ غیبی واقعات ہیں:
قرآن مجید میں انبیاء اور گذشتہ قوموں کے متعلق جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ، وہ قرآن کا ایک مستقل معجزہ ہے، اعجاز کا پہلو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان اطلاعات کا سر چشمہ وحی کے سوا کچھ نہیں، آنحضرت اُمّی تھے، اور یہ واقعات تمام تر مکی سورتوں میں بیان کئے گئے ہیں اور وہاں بہ اتفاق مورخین کوئی یہودی اور عیسائی نہ تھا، ورقہ بن نوفل جو انجیل کا علم رکھتے تھے صحیح روایت کے مطابق نبوت کے پہلے ہی سال انتقال کر گئے تھے۔
ہجرت سے پہلے دو عیسائیوں سے آپ کا ملنا بیان کیا جاتا ہے، ایک بحیرا راہب، دوسرا عداس، پہلے سے بصرہ میں اور دوسرے سے طائف میں ملنا مذکور ہے، لیکن پہلی ملاقات چند گھنٹوں اور دوسری ملاقات چند منٹوں سے زیادہ نہیں، پہلی ملاقات کے وقت آپ کی عمر تیرہ سال تھی، اتنی چھوٹی عمرمیں اور اتنی مختصر ملاقات میں زبان کی بے گانگی کے ساتھ کوئی ذی ہوش انسان یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا ہے آپ نے وہ تمام علوم حاصل کر لئے جسے آپ نے تفصیل اور صحت کے ساتھ بیان فرمایا جس سے خود یہودی اور مسیحی صحیفے قاصر ہیں۔
قرآن مجید اور قدیم آسمانی صحیفوں کا فرق:
عصر نبوت یا اس کے بعد جن لوگوں کا خیال تھا کہ قرآن مجید کے واقعات تورات و انجیل سے ماخوذ ہیں وہ تو سرے سے تورات و انجیل سے بے خبر معلوم ہوتے ہیں، قرآن مجید اور تورات وانجیل آج بھی دنیا میں موجود ہیں اور ان کے ماننے والوں کے مطابق ان کے صحیفے محفوظ بھی ہیں، آج نہایت آسانی سے دونوں کا تقابل کیا جاسکتا ہے، بلاشبہ واقعات کے بعض اجزاء ان صحیفوں میں مشترک اور متحد ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا اصلی سر چشمہ ایک ہے، لیکن واضح طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک محفوظ ہے اور دوسرا انسانی دست برد اور مداخلت سے غیر محفوظ ہے، ان صحیفوں کے اسلوب بیان اور مضامین میں نمایاں فرق ہے، ایک میں وحی کی تاثیر، کتاب الہی کی ابدیت کی شان نظر آتی ہے، اس کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کا موضوع تاریخی نہیں بلکہ ہدایت اور عبرت و موعظت ہے، اس میں سنین نہیں، اعداد نہیں، اشخاص کی تعداد اور ہر قسم کی تفصیلات جن کا تعلق تاریخ سے ہے، اس میں موجود نہیں، اس کے مقابلہ میں تورات میں سلاطین، تواریخ اور کتاب پیدائش کا مطالعہ کیجئے ، ان پر تاریخیت کا رنگ غالب ہے، کثرت سے سنین ہیں ۔ اشخاص اور قبائل کی گنتیاں ہیں اور عادتوں کی مفصل تشریح ، اس میں بھی کہیں کہیں وحی الہی کی کرن نظر آتی ہے اور انسان کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خدا کے کلام کا تحریف شدہ ترجمہ ہے۔
انبیاء کی سیرت تورات اور قرآن کے مرقع میں:
قرآن مجید اور تورات کے درمیان ایک بڑا عظیم الشان فرق یہ ہے کہ قرآن نے انبیاء کی سیرت بالکل بے داغ اور ایسی پاکیزہ پیش کی ہے جو ان کے منصب و مقام کے بالکل مطابق ہے، بلکہ اس نے ان تمام الزامات اور تہمتوں کی تردید کی ہے جو ان کے دشمنوں یا نادان دوستوں میں مشہور تھیں ، اس کے برخلاف تورات میں ان انبیاء کے متعلق ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں جن کو پڑھ کر تہذیب کی آنکھیں جھک جاتی ہیں اور حیا کی پیشانی عرق آلود ہو جاتی ہیں، ان پر کہیں کفر کے الزامات لگائے گئے اور کہیں فسق کے، کتاب پیدائش کے باب نمبر٩ میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق ، باب نمبر ١٩ میں حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق، کتاب خروج کے باب نمبر ۳۲ میں حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق ، کتاب سلاطین کے باب نمبر ١١ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق صاف صاف کفر و شرک اور فسق و فجور کی شہادتیں موجود ہیں۔
صحف سابقہ کی تحریفات پر تنبیہ:
قرآن کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے یہودیوں وغیرہ مختلف مذہبی فرقوں کے اختلافی عقائد اور خیالات کو جن سے عام آدمی واقف نہیں ہیں، بڑی صحت اور پختگی کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اسی طرح سے اشخاص و واقعات کے سلسلہ میں قرآن نے جن چیزوں پر زور دیا ہے یا جن چیزوں کی نفی کی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ یہودی، عیسائی ان چیزوں کو نہیں مانتے اور ان کے بعض الزامات کی تردید مقصود ہے، یہاں پر اس کی بعض مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
١- قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
"وماكفر سليمان ولكن الشياطين كفروا ” سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے ۔ (بقرہ: ع ۱۲)
ایک خالی ذہن انسان کو اس پر تعجب ہو سکتا ہے کہ ایک جلیل القدر نبی سے کفر کی نفی کی کیا ضرورت تھی لیکن بائبل میں حضرت سلیمان کے متعلق جو تصریحات ہیں اور ان کے بارے میں یہودیوں میں شرک ، بت پرستی اور تعلیم سحر وغیرہ کی جو روایات مشہور اور مقبول عام تھیں، ان کو سامنے رکھ کر اس نفی و تردید اور حضرت سلیمان کی عصمت و برکت کی قدر و قیمت اور اہمیت و ضرورت واضح ہو جاتی ہے۔
۲- قرآن شریف میں زمین و آسمان کی پیدائش کے بعد مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس عمل میں کسی طرح کا تکان اور آرام کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ (دیکھئے ق – ۳۸) ایک سلیم الفطرت انسان اس کو پڑھ کر تعجب کر سکتا ہے کہ قوی و عزیز قادر و قاہر خدا کو اس صفائی دینے کی کیا ضرورت تھی لیکن جب بائبل کی اس عبارت پر نظر پڑتی ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا تھا ( پیدائش ۲۰۲) تو فرمان خداوندی کی ضرورت ، معنویت اور افادیت صحیح طور پر سمجھ میں آتی ہے، اور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کس جہالت اور جرأت کی تردید ہے۔
قرآن مجید سے استفادہ کے شرائط اور موانع:
قرآن مجید کی مخاطب پوری نوع انسانی ہے، لیکن جس طرح زمین کے مختلف حصے اپنی صلاحیت کے لحاظ سے باران رحمت سے فائدہ اٹھانے میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح سے قرآن مجید کا خطاب بھی یکساں ہے لیکن اس کو قبول کرنے کی صلاحیت سب کی یکساں نہیں ہوتی ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اثر و نتائج کا یہ اختلاف قرآن میں خود بیان فرمایا ہے۔ (دیکھئے: اسراء -۸۲، فصلت: ع -۵، توبه : ع -٦۶، بقره: ع -۳)
قرآن مجید نے متعدد جگہوں پر مومنین کی اثر پذیری اور کفار کی بے اثری کے ذکر کے موقع پر مومنین اور کفار کے اخلاق وصفات اور عقائد و اعمال کا بھی ذکر کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اوصاف کو مختلف نتائج میں ضرور دخل ہے، ان اوصاف کی روشنی میں ہم قرآن سے استفادہ کے شرائط اور موانع مرتب کر سکتے ہیں، اور یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ کس قسم کی ذہنیت اور تربیت قرآن سے مناسبت رکھتی ہے، اور کس قسم کی سیرت قرآن کے منافی اور اس کے لئے حجاب بنتی ہے ، اس کو مختلف عنوانوں کے ماتحت ذکر کیا جاتا ہے۔
قرآن سے استفادہ کے موانع:
قرآن سے استفادہ کے موانع کو قرآن نے کفار کی محرومی کے تذکرہ کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے راستے میں یہ اخلاق و اعتقادات سخت مزاحم ہیں ، کفار کے علاوہ مسلمانوں میں بھی یہ مواقع پائے جائیں گے تو قرآن مجید سے فائدہ اٹھانے میں حارج ہوں گے۔
1 – تکبر
انبیاء کرام کی تعلیم کے برکات اور اس کی پیروی کی سعادت سے محرومی کا بڑا سبب اکثر تکبر، جھوٹی عزت نفس اور خود داری کا جاہلی جذبہ ہوتا ہے، کبھی یہ انکار اور استکبار براہ راست قبول حق سے ہوتا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے اپنے جاہ واقتدار سے دست بردار ہونا پڑتا ہے،جاہلانہ عادات اور رسوم چھوڑنے پڑتے ہیں۔(دیکھئے اعراف : ع -۱۷، جاثیہ: ع – ا، مدثر : ع -۱) اور کبھی پیغمبر کی ظاہری حالت اور غربت کو دیکھ کر وہ اس کے پیغام سے انکار و استکبار کرتے ہیں۔ (دیکھئے: زخرف: ع۳-۵) اور کبھی بشریت ان کے لئے عذر بن جاتی ہے۔ (تغابن، فرقان: ع -۱) کبھی رسول کے اتباع کرنے والوں کی معاشی پستی اور کم نسبی کو عذر بنا لیتے ہیں۔ (ھود:ع-٣) کبھی یہ رکاوٹ اس بنا پر ہوئی ہے کہ وہ خود کو دنیاوی اقبال مندی کی وجہ سے ہر اچھی چیز کا حق دار سمجھ لیتے ہیں اور جو چیز ان کونہ ملے وہ خیر ہی نہیں۔ (احقاف: ع-٢)
یہی اسباب ہیں جن کی بنا پر کسی بستی کے آسودہ حال لوگ انبیاء کی دعوت کی مخالفت میں سب سے پیش قدمی کرتے ہیں۔ (سبا: ع -٤،انعام : ع -۱۵)
بہر حال تکبر، خواہ اس کی وجہ کچھ ہو یہ قرآن مجید سے فائدہ اٹھانے میں سخت مزاحم ہوتا ہے، انبیاء کی رہنمائی قبول کرنے کے لئے تواضع، تسلیم و رضاء اور ایثار شرط ہے۔(نساء: ع -۹)
2 – مجادله:
قرآن مجید کے بارے میں کسی روشنی کے بغیر بحث و مباحثہ کرنا، اس کو اپنی لفاظی سے مغلوب کرنے کی کوشش کرنا ، اس کے بارے میں قیاس آرائی کرنا قرآن کی ہدایت سے محروم رکھتا ہے، اور سینے کے چھپے ہوئے تکبر کا پتہ دیتا ہے۔ (مؤمن: ع-٤،٦، سباع -۱،انعام : ع -١٤)
3 – انکار آخرت اور دنیا پرستی:
عقائد کفر میں سے آخرت کا انکار قرآن سے متاثر ہونے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں بہت مانع ہوتا ہے، اس لئے کہ قرآن کی ترغیب و ترہیب اور وعظ و اصلاح کی ایک اہم بنیاد آخرت ہے، اس لئے جو لوگ آخرت کے متوقع ہیں وہ قرآن سے کسی حال میں مستغنی نہیں ہو سکتے ۔ (انعام : ع – ۱۱) لیکن جو لوگ آخرت کے منکر ہیں یا عقیدۃً منکر نہیں مگر عملاً ان پر دنیا پرستی غالب ہے ، ان کے لئے قرآن بے اثر یا کم اثر ہے۔ (بنی اسرائیل : ع – ۵ ،نحل : ع -۳ ، نجم : ع -۲) مادیت کا غلبہ ایسی غباوت پیدا کر دیتا ہے کہ غیر مادی چیزوں کے بارے میں ان کا دماغ کام ہی نہیں کر سکتا ہے۔ (نحل : ع -۵)
متشابہات کی پیروی:
قرآن کی آیات متشابہات سے اپنے اغراض کے لئے استدلال کرنا اور لوگوں کو تحریف اور غلط تاویل سے گمراہ کرنا جس کا سبب دلوں کی کجی اور بدنیتی ہے۔ (آل عمران :ع-۱)
وہ صفات جو قرآن سے استفادہ کے لئے معاون ہیں:
1- طلب:
قرآن سے فائدہ اٹھانے کی پہلی شرط طلب ہے، جس کو سرے سے اس کی طلب نہ ہو اس کے لئے قرآن کیا موثر ہوسکتا ہے؟ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ طلب پر دیتا ہے، اور طلب کی اس کے یہاں بڑی قدر و قیمت ہے۔ (رعد: ع -٤) دین میں بے نیازی محرومی اور بد بختی کی نشانی ہے۔ (تغابن : ع -ا، فاطر : ع۳)
2- استماع اور اتباع:
قرآن بہر حال ایک صحیفہ اور تعلیم ہے، اس سے منتفع ہونے کا پہلا ذریعہ یہی ہے کہ اس کو غور سے سنئے ، جو سرے سے کان لگا کر سنتا ہی نہیں ، اس کے بعد کے مراحل کیا طے کرے گا، لیکن صرف غور سے سن لینا کافی نہیں، بلکہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے علم بلاعمل ایک دماغی تعیش ہے۔
3- خوف:
قرآن کی بنیاد خدا کے خیال اور اس کے خوف پر ہے، جس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہے اور جس کے لئے خدا کے نام میں کوئی کشش نہیں اس میں در حقیقت دین کا مادہ نہیں ہے، اور وہ گویا دین کے حاسّہ سے محروم ہے، اور جب کسی کا کوئی حاسّہ کم ہو تو اس کے محسوسات کا وہ کسی طرح ادراک کر سکتا ہے، قرآن نے اپنے کو ان کے لئے مفید بتایا ہے جن کے دل پر اللہ کے نام کا اثر ہوتا ہے، باقی جن کے دل کی انگیٹھیاں بالکل سرد ہوچکی ہیں، ان میں قرآن سن کر کوئی گرمی پیدا نہیں ہوتی ۔ (دیکھئے: ق: ٤٥، يٰسين : ع – ا، زمر: ع -۳)
4- ایمان بالغیب:
دین کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جو انسان کے حواس اور اس کی عقل کے حدود سے باہر ہے، اس لئے کہ عقل کا کام صرف یہ ہے کہ وہ محسوسات اور معلومات اور تجربات کے ذریعہ غیر محسوس اور غیر معلوم چیزوں کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کا علم حواس اور تجربات کے ذریعہ ممکن نہ ہو وہاں عقل کیا کام دے سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کے صفات، وحی ، فرشتے، آخرت، جنت اور دوزخ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو خلاف عقل نہیں لیکن ورائے عقل ضرور ہیں، یہ سب غیب میں شامل ہیں جس کے لئے انبیاء پر اعتماد کرنا اور جو کچھ وہ بتلائیں اس کو قبول کرنا یہی ایمان بالغیب ہے، جو لوگ اپنے یقین و عقیدہ کے لئے محسوسات کے پابند ہیں ، وہ دین کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور وہ قرآن سے منتفع نہیں ہو سکتے ، "هدیً للمتقين الذين يؤمنون بالغيب” (یہ قرآن ہدایت ہے پر ہیز گاروں کے لئے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں )
وہ لوگ جن پر حسیت پورے طور پر طاری ہوتی ہے اور وہ ایمان بالغیب کے بغیر دین کے ماورائے عقل حقائق کی گرہ کشائی کی کوشش کرتے ہیں، ان کی کوشش اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو بغیر پر اور بازو کے اڑنا چاہتا ہے اور جس قدر کوشش کرتا ہے اس کی مادیت اور کثافت اس کو نیچے کی طرف لاتی ہے۔ (انعام: ع -۱۵)
5- تدبر
قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لئے تدبر بھی شرط ہے، قرآن نے جابجا تدبر کی ترغیب دی ہے اور مومنین کی تعریف کی ہے جو قرآن مجید کو سوچ سمجھ کر پڑھتے ہیں اور اس پر اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے ۔ (فرقان محمد ۳ نساء: ع -۱۱)
6- مجاہدہ:
قرآن مجید کے فہم اور تدبر میں اور اس پر عمل کرنے میں مجاہدہ اور مشقت بھی ضروری ہے، قرآن ان انسانی کتابوں میں سے نہیں ہے جن کے مضامین کا احاطہ محض ذہانت یا علم کی بنیاد پر کیا جاسکتا ہے، بلکہ اللہ کا منشاء معلوم کرنے کے لئے اس کی رضا اور اعانت کی ضرورت ہے جب انسان اس کے لئے تکلیف اٹھاتا ہے، طہارت اخلاق سے کام لیتا ہے تو اللہ کی رحمت بھی اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور اللہ اپنی کتاب کے لئے اس کا سینہ کھول دیتا ہے۔ (عنکبوت: ٦۹ ) قرآن چونکہ نہایت لطیف چیز ہے اس لئے جس قدر انسان کی مادی کثافت کم ہوتی ہے، اسی قدر قرآن سے مناسبت پیدا ہوتی ہے۔
7- ادب و عظمت:
قرآن معلومات کا کوئی دفتر یا ضوابط و قوانین کا کوئی مجموعہ نہیں ہے جس کو کسی بھی طرح پڑھ لیا جائے اور اس کے مضامین سے آگاہی حاصل کر لی جائے ، وہ اس احکم الحاکمین اور سلطان السلاطین کا کلام ہے جو جمال و کمال اور عطا و نوال کی تمام صفتوں سے متصف ہے جس نے اپنے کلام کے متعلق خود فرمایا ہے:
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے وہ دبا اور پھٹا جا رہا ہے۔ (حشر: ۲۱)
اور اس کا قدرتی اور طبعی نتیجہ ہے کہ جن لوگوں کو اس سے مناسبت اور اس کلام کے نازل کرنے والے کے مقام سے کچھ بھی واقفیت ہوتی ہے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ (انفال: ۲ ، زمر : ع -۳)
ایسے تلاوت کرنے والوں کے متعلق ارشاد ہے:
"الذين أتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته أولئك يؤمنون به”.
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اسکی تلاوت کا حق ہے اور اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں۔(بقرہ: ع ١٤)
یعنی جس عزت سے بادشاہ کا کلام پڑھا جاتا ہے اور جس شوق سے محبوب کا پیام پڑھا جاتا ہے اسی شوق سے پڑھتے ہیں، اس سلسلہ میں دو چیزوں کا مطالعہ اور اہتمام مفید ہے، ایک یہ کہ ان صحیح حدیثوں کا مطالعہ کیا جائے جو قرآن مجید کی فضیلت میں وارد ہوتی ہیں، دوسرے تراجم کی کتابوں میں صحابہ و تابعین ، فقہاء و محدثین اولیاء و عارفین کے ان حالات و واقعات کا پڑھنا چشم کشا ، شوق انگیز اور روح پرور ثابت ہو گا جن میں قرآن مجید کے ساتھ عشق و شغف اس کے ادب و تعظیم کی کیفیت، تلاوت کے وقت ان پر اثرات و کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔
نوٹ:
اس کے بعد صاحب کتاب نے تلاوت و تدبر قرآن کے چند واقعات بیان کئے ہیں، وہ اس تلخیص میں شامل نہیں ، اسی طرح سے قرآن مجید اور قدیم آسمانی صحیفے علم و تاریخ کی میزان میں جس میں قرآن مجید کی اصالت اور دیگر مذہبی کتابوں کا محرف ہونا بیان کیا گیا ہے، جو ۲۰ صفحات پر مشتمل ہے، اور قرآن مجید کی ایک اہم پیشین گوئی غلبہ روم جو ٤۰ صفحات پر مشتمل ہے، یہ دونوں عناوین بھی اس تلخیص میں شامل نہیں ہیں ۔
شائع شدہ مجلہ تعلق بالقرآن اہمیت اور تقاضے۔جامعہ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ ۔اپریل 2011ء
☆☆☆