معاشیات اور اس کی تعلیم:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

معاشیات اور اس کی تعلیم انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے ، اشتراکی نظام کے دم توڑ دینے اور سرمایہ دارانہ نظام کے تباہی کے دہانے پر پہنچ جانے کے بعد دنیا کی نگاہیں ایک نئے نظام کی تلاش میں ہیں، اس لیے اس وقت اسلام کے معاشی نظام کو متعارف کرانے کی شدید ضرورت ہے۔
معیشت کے لیے عربی زبان میں ’’اقتصاد‘‘ کا لفظ استعمال کیاجاتاہے، جو انگریزی لفظ Economics کا ترجمہ ہے اور یہ لفظ اس خیال پر مبنی ہے کہ انسانی ضروریات و خواہشات بے شمار ہیں اور اس کی تکمیل کے وسائل اور ذرائع محدود ہیں۔ لہٰذا وہ کونسی راہ اختیار کی جائے جس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ضرورتیں پوری ہوسکیں۔
کتاب و سنت میں اس کے لیے ’’معاش‘‘اور ’’کسب‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیا ہے اور یہ ’’اقتصاد‘‘ کے مقابلے میں زیادہ مناسب ہے اور اس لفظ کے ذریعہ ہی اس موضوع کی اہمیت اور نزاکت کا احساس ہوتاہے، چنانچہ علامہ ابن خلدون اس کی تعریف میں لکھتے ہیں:
روزی کی تلاش اور اس کے حصول کے لیے کوشش کا نام ’’معاش‘‘ ہے، یہ لفظ ’’عیش‘‘ سے بنایا گیا ہے جس کے معنی زندگی کے ہیں اور چونکہ زندگی اس کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی ہے ، اس لیے بطور مبالغہ خود اس کوشش کو زندگی کا نام دے دیاگیاہے۔(مقدمہ ابن خلدون /382، دارالقلم بیروت لبنان 1984ء)
رزق کی تلاش کی کوشش اور وسائل و ذرائع صحیح ہوں یا غلط، موجودہ اقتصادی نظام میں اس کی رعایت نہیں کی جاتی ہے ، بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نفع بخش اور سودمند ہیں یا نہیں۔ حالانکہ اسلام کے معاشی نظام میں یہی چیز بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے اس کی زیادہ صحیح تعریف وہ ہے جو امام محمد نے کی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
انہ طلب تحصیل المال بما یحل من الاسباب ۔(کتاب الکسب مع المبسوط للسرخسی 244/30)
وہ جائز اسباب و وسائل کے ذریعہ مال کمانے کی کو شش کا نام ہے۔
اور جائز ذریعہ سے مال حاصل کرنے کی کوشش اسلام کی نگاہ میں ایک عبادت اور کارثواب ہے کہ جس طرح سے ایک انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو جانے اور پہچانے اور اس کی عبادت کرے ، اسی طرح سے اس سے اس بات کا بھی تقاضا کیاگیاہے کہ وہ زندگی گذارنے کے ذرائع کو حاصل کرے اور دوسروں کے سامنے دست طلب دراز کرنے اور کاسہ گدائی لے کر پھرنے کی ذلت سے بچے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
کسب الحلال فریضۃ بعدالفریضۃ(رواہ البیہقی فی شعب الایمان ، مشکاۃ المصابیح 847/2)
حلال کمائی فرض کے بعد ایک فرض ہے۔
دین کے بنیادی ارکان و فرائض کے علم و ادائیگی کے بعد روزی حاصل کرنے کی فکر و کوشش بھی ایک فریضہ ہے جس سے غفلت و کوتاہی جرم ہے اور اس کی طلب و جستجو میں رہنا ایک عبادت اور کار ثواب ہے بلکہ یہ متعدد عبادتوں کی ادائیگی کا ذریعہ اور ان کے لیے معاون اور مددگار ہے اور جس طرح سے اسلامی عبادات یعنی نماز و روزہ وغیرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی ہے جسے جاننا ہرشخص پر فرض ہے ، اسی طرح سے کتاب و سنت میں معاشی معاملات کے بارے میں بھی ہدایات و تعلیمات موجود ہیں، جن کے متعلق جاننا ہر شخص کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ زندگی کی فطری ضرورت کو حاصل کرسکے اور صحیح و غلط وسائل اور حرام و حلا ل ذرائع میں فرق کرسکے۔

انسانی زندگی کے لیے مال کی اہمیت:

دنیاوی زندگی کے لیے مال ایک لازمی چیز ہے کہ اس کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
ولاتؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما(النساء:5)
اور اپنا مال کم عقلوں کے حوالے مت کرو، جسے اللہ نے تمہارے لیے مایۂ زندگی بنایاہے۔
یعنی مال وہ چیز ہے جس پر انسانی زندگی کی بنیاد قائم ہے اور اسی پر حیات مادی کا دارومدار ہے، نیز اسے بہتر اور اچھی چیز کہاگیاہے۔ ارشادربانی ہے:
کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیرا الوصیۃ للوالدین والاقربین بالمعروف حقا علی المتقین (البقرہ:180)
تم پر فرض کیاگیاہے جب تم میں سے کسی کو موت آتی معلوم ہو بشرطیکہ وہ بہتر چیز(یعنی مال) چھوڑے جارہا ہو تو وہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے مناسب اندازمیں وصیت کرجائے، یہ چیز پرہیزگاروں پر لازم ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں ’’خیر‘‘ سے مراد مال ہے۔(معارف القرآن 382/1، تفسیر ماجدی 327/1)
اور متعدد آیتوں میں اسے اللہ کا ’’فضل‘‘ کہاگیاہے اور اس کے لئے تگ و دو کرنے کا حکم دیاگیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ(الجمعۃ10)
جب جمعہ کی نماز ہوجائے تو روئے زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
"جیسا کہ بارہا گزرچکا ہے، اللہ کا فضل تلاش کرنا قرآن کریم کی اصطلاح میں تجارت وغیرہ کے ذریعے روزگار حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے، لہذا مطلب یہ ہے کہ خرید وفروخت پر جو پابندی اذان کے بعد عائد ہوئی تھی، جمعہ کی نماز ختم ہونے کے بعد وہ اٹھ جاتی ہے اور خرید وفروخت جائز ہوجاتی ہے”۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور اللہ تعالیٰ نے دن کو تلاش معاش کے لیے بنایا ہے .(وجعلناالنہار معاشا.النبأ:11) اور زمین میں انسان کی روزی رکھ دی گئی ہے (الاعراف:10)اور اس کی تلاش میں خشکی اور سمندری سفر کی اجازت دی گئی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانیاں پیدا فرمائی ہیں اور اسے اپنے انعامات اور احسانات میں سے شمار کیا ہے اور دوران سفر عبادت وغیرہ میں بہت سی رخصتیں دی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
علم ان سیکون منکم مرضی وآخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ وآخرون یقاتلون فی سبیل اللہ فاقرؤا ماتیسر منہ(المزمل:20)
اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم ہے کہ تم میں کچھ لوگ بیمار ہونگے اور دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرینگے اور بعض لوگ اللہ کے راستے میں جنگ کریں گے۔ لہٰذا تمہارے لیے جو آسان ہو وہ پڑھو۔
حضرت عمرؓ رزق کی تلاش کو اللہ کی راہ میں جہاد سے افضل سمجھتے تھے ، علامہ سرخسی نے لکھاہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں روزی کے لیے بھاگ دوڑ اور سفر کو جہاد سے پہلے بیان کیاگیاہے۔(کتاب الکسب245/30)
مردوں کو عورتوں پر برتری اور سرداری حاصل ہے ، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ
مرد ان پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔(النساء:34) اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور قوامیت کے لیے مال ایک ضروری چیز ہے ، دنیا میں قوموں کی قیادت وہی لوگ کرتے ہیں جن کی پاس مال ہے اور وہ اس کے صحیح استعمال سے واقف ہیں۔

تلاش معاش کی حوصلہ افزائی:

معاش کے ذرائع کو اختیار کرنا نبیوں کا شیوہ اور طریقہ ہے ۔(ان الاکتساب طریق المرسلین ۔کتاب الکسب 248/30) چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق منقول ہے کہ انھوں نے کھیتی کی، حضرت ادریس علیہ السلام سلائی کا کام کیاکرتے تھے، حضرت نوح نے کشتی بنائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کپڑے کی تجارت کرتے تھے ، حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئی کا کام کیاکرتے تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام لوہے سے زرہیں بنایا کرتے تھے اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے بکریاں چرائیں اور تجارت میں مشغول رہے۔ (حوالہ مذکور/246) اور اپنے ساتھیوں کو بھی کام کرنے کے سلسلہ میں حوصلہ افزائی کرتے تھے، حضرت عمرو بن عاص کہتے ہیں :
اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے کہا: عمرو! میں تمہیں ایک لشکر کے ساتھ بھیج رہاہوں اور میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں صحیح سالم رکھیں اور تم مال غنیمت لے کر واپس آؤ اور میرا جی چاہتاہے کہ تمہارے پاس مال و دولت ہو، انھوں نے کہا اللہ کے رسولؐ! میں نے مال و دولت کے لیے اسلام قبول نہیں کیاہے، میں نے اسلام کی رغبت و محبت کی وجہ سے اسے قبول کیا ہے اور اس لیے کہ آپ کی رفاقت نصیب ہو، آپ نے فرمایا : اے عمرو! اللہ کے نیک بندے کے لیے پاکیزہ مال ایک اچھی چیز ہے۔(مسنداحمد بن 248/30/4، صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی ، المستدرک 2/2)
اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کرام کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے،ایک طاقت ور اور پھرتیلا جوان سامنے سے گذرا ، جو صبح سویرے روزی کی تلاش میں نکلا تھا، لوگوں نے کہا بڑے افسوس کی بات ہے ، کاش کہ اس جوان کی جوانی اور قوت اللہ کے راستے میں صرف ہوتی، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:یہ مت کہو، اگر یہ بھاگ دوڑ اپنی ذات کے لیے ہے تاکہ مانگنے سے بچے اور لوگوں سے بے نیاز رہے تو یہ بھی راہ خدا میں شمار ہوگا اور اگر ضعیف اور بوڑھے ماں باپ اور کمزور بچوں کے لیے تگ و دو کررہا ہے تاکہ انھیں بے فکر کردے اور ان کی کفالت کرے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں گنا جائے گا۔(احیاء علوم الدین57/2)
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام بے کاری کو سخت ناپسند کرتے تھے اور اپنے آپ کو انھوں نے مختلف پیشوں اور کاموں سے وابستہ کر رکھاتھا، حضرت ابوبکرؓ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے اور حضرت عمرؓ چمڑے کا، حضرت عثمان تجارت پیشہ تھے اور حضرت علیؓ نے متعدد بار مزدوری کی۔ (کتاب الکسب 248/30) حضرت عمرؓ نے کچھ لوگوں کو دیکھاکہ وہ گردن جھکائے بیٹھے ہوئے ہیں، پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ توکل کرنے والے ، اللہ کے بھروسے کام کے بغیر روزی کی امید رکھتے ہیں، فرمایا:یہ تاکل کرنے والے ہیں یعنی لوگوں کا مال کھانے والے ہیں، میں تمہیں بتلاؤں کہ توکل کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے کہا ضرور ۔ فرمایا : وہ شخص جو مٹی میں دانے کو ڈال دے اور پھر اللہ عز و جل پر بھروسہ رکھے۔(حوالہ مذکور)
حضرت عبداللہ بن مسعود کہا کرتے تھے کہ میں بے کار شخص کو ناپسند کرتاہوں جو نہ دنیا کے کام میں مشغول ہو اور نہ آخرت کے کام میں ۔(مجمع الزوائد63/4)
صحابہ کرام کے ذریعہ سے یہ فکر تابعین اور ائمہ دین کی طرف منتقل ہوگئی، حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ جو شخص کام نہ کرتا ہو اس کے لیے کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔(لاتاکل خبزا بزیت حتی تعمل عملا الی الموت، کتاب الکسب 245/30)
حضرت ابراہیم نخعی سے پوچھا گیا کہ سچا تاجر بہترہے یا وہ شخص جس نے خود کو عبادت کے لیے فارغ کرلیا ہو؟ فرمایا:سچاتاجر؛ کیونکہ وہ ناپ تھول اور لین دین میں شیطان کے ساتھ جہاد کرتاہے.(احیاء علوم الدین 58/2)امام احمدبن حنبل سے کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص یہ سوچ کر گھر یا مسجد میں بیٹھ جائے کہ میر ی روزی خود بخود میرے پاس پہنچ جائے گی تو کیسا ہے؟ انھوں نے کہا ایسا شخص جاہل ہے۔(حوالہ مذکور)

گداگری کی حوصلہ شکنی:

شرافت اور شرم و حیا انسان کا ایک مخصوص جوہر ہے ، مانگنے کی عادت اور دریوزہ گری اس مخصوص نعمت سے اسے محروم کردیتی ہے ۔ اس کی شرافت اور آبرو جاتی رہتی ہے ، اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی حفاظت کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے آپ کا ارشادہے:
لان یاخذ احدکم حبلہ فیاتی بحزمۃ علی ظھرہ فیبیعھا فیکف اللہ بھا وجھہ خیر من ان یسأل الناس اعطوہ أو منعوہ (صحیح بخاری/293، کتاب الزکاۃ ، دارالسلام ریاض)
کوئی شخص رسی لے کر جائے اور لکڑیاں باندھ کر پشت پر لے کر آئے اور اسے فروخت کرے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی آبرو رکھ لیں، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، جی چاہے دیں یا واپس لوٹا دیں۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی مانگنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے، آپ نے ان سے پوچھاکہ تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ انھوں نے کہا:ہاں، ایک بستر جس کے ایک حصے کو ہم بچھا لیتے ہیں اور ایک حصے کو اوڑھ
لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں، آپ نے فرمایا: انھیں لے آؤ، جب وہ لے آئے تو اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: اسے کون خریدے گا؟ ایک صاحب نے کہاکہ میں اس کا ایک درہم دے سکتاہوں، اللہ کے رسول نے فرمایا اس سے زیادہ کون دے سکتاہے؟ ایک دوسرے صاحب نے کہاکہ میں دو درہم دے سکتاہوں، اللہ کے رسول نے دونوں چیزیں ان کے حوالے کیں اور ان سے دو درہم لے کر اس انصاری صحابی کو دیا اور کہا ایک درہم کا کھانا خرید کر اپنے گھردے آؤ اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خرید لاؤ، وہ کلہاڑی خرید کر لائے اور اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ہاتھ سے دستہ لگایا اور فرمایاجاؤ لکڑی کاٹ کر بیچو اور پندرہ دن تک یہان نظرنہ آؤ، وہ لکڑی کاٹتے اور بیچتے رہے اور پندرہ دن کے بعد خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، دس درہم جمع کرچکے تھے، اللہ کے رسول نے فرمایاکہ کچھ روپئے سے کھانے کی چیزں اور کچھ کے کپڑے خرید لو اور فرمایایہ تمہارے لیے اس سے بہترہے کہ تم لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ، جس کے نتیجے میں قیامت کے دن تمہارے چہرے پر داغ، دھبہ ہو۔(سنن ابن ماجہ ، 852/1، بیت الافکار الدولیہ)
اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ جوشخص کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کے لیے بے کار رہنا صحیح نہیں ہے اور ایسے شخص کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا غلط ہے ، (لاتحل الصدقۃ لغنی ولالذی مرۃ سوی.سنن ترمذی، 889/1 مع التحفہ، بیت الافکار الدولیہ)
مسلمان حکمرانوں کی عیاشی کے رد عمل میں کچھ لوگوں میں دنیا بیزاری کی کیفیت پیداہوئی اور انھوں نے زہد کے نام سے اسے مسلم معاشرہ میں رواج دینا شروع کیا جس کے نتیجہ میں بھکاریوں اور کام چوروں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہوگئی، امام محمدؒ نے کتاب الکسب لکھ کر ان باطل خیالات کی تردید فرمائی۔علامہ سرخسی نے لکھا ہے کہ امام محمد سے پوچھا گیا کہ آپ نے زہد پر کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی؟ انھوں نے فرمایاکہ کتاب الکسب یا کتاب البیوع اسی مقصد سے لکھی ہے کہ سب سے بڑا زہد حلال روزی ہے۔

معاش کے ذرائع:

انسان کی اپنی سہولت اور ملکی ضرورت کے پیش نظر معاش کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں، اللہ کے رسول کے زمانے میں تجارت، زراعت، صنعت، اجارہ اور مزدوری ہر ایک کا رواج تھا اور آپ نے ہر کام کی تعریف کی اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں دی بلکہ آپ نے اس سلسلہ میں کچھ اصولی احکام دینے پر اکتفا فرمایا۔

1-تجارت:

تجارت کے سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ اسے اپنے لیے لازم سمجھ لو کیونکہ روزی کے دس میں سے نو حصے تجارت میں ہیں. (علیکم بالتجارۃ لان فیھا تسعۃ اعشار الرزق.احیاء علوم الدین 57/2)
نیز آپ ﷺ نے تاجر کے متعلق فرمایا:
التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء.
سچا امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔(سنن ترمذی 1215/1کتاب البیوع)
یعنی وہ تاجر جو اپنی تجارتی مصلحت اور نفع و نقصان کو نظر انداز کرکے سچائی اور امانت داری پر قائم رہتاہے ، تو وہ بھی مجاہد کی طرح ہے جو دن بھر میں نہ معلوم کتنی مرتبہ نفس کے تقاضوں سے لڑتا ہے ،بارہا اس کے سامنے ایسا موقع آتا ہے کہ وہ تھوڑی سے خیانت کرکے لاکھوں کما سکتاہے، لیکن ہرحال میں ایمان داری کے دامن کو تھامے رہتاہے تو ایسے شخص کے لیے بشارت ہے کہ اسے اللہ کے مقبول ترین بندوں یعنی نبیوں، رسولوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی رفاقت حاصل ہوگی۔

2- صنعت:

صنعت اور ہنرمندی کی تعلیم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں اور احسانات میں شمار کیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
وعلمناہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم فھل انتم شاکرون؟(سورۃ الانبیاء:80)
اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زرہ بنانے کی تعلیم دی تاکہ جنگ کے دوران تمہاری حفاظت ہوسکے ، تو کیا تم اس پر شکر کرتے ہو؟
اور حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق ارشادہے:
واصنع الفلک بأعیننا و وحینا(سورۃ ھود:37)
ہماری نگرانی اور ہماری وحی کی روشنی میں کشتی بناؤ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی فن تعمیر سے دلچسپی اور ذوالقرنین کے سد سکندری کی تعمیر کا واقعہ بھی قرآن میں مذکور ہے۔
اور اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں :
مااکل احدطعاما قط خیرا من أن یاکل من عمل یدیہ وان نبی اللہ داؤد یاکل من عمل یدیہ.(صحیح بخاری/409کتاب البیوع)
جو کھانا انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھائے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ زکریا علیہ السلام بڑھئی کا پیشہ کیاکرتے تھے۔ (صحیح مسلم /1453 مع المنہاج، بیت الافکار الدولیہ) اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن معاذ آپ کے پاس آئے اور مصافحہ کیا، آپ کو ان کا ہاتھ بڑا کھردرا معلوم ہوا، آپ نے وجہ دریافت کی ، انھوں نے کہاکہ میں بیلچہ اور کدال چلاتا ہوں اور اس کے ذریعہ اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا ہوں، یہ سن کر آپ نے ان کے ہاتھوں کو چوم لیا اور فرمایا: ھذہ ید لاتمسھا النار ۔
اس ہاتھ کو جہنم کی آگ چھو نہیں سکتی۔(کتاب الکسب /73حدیث صحیح نہیں ہے ، تحقیق عبدالفتاح ابوغدہ)
غرضیکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہر طرح کے پیشہ کو وقار اور عظمت دی اور اس تصور کو ذہنوں میں راسخ کیا کہ دنیامیں ایک پیشہ کے علاوہ کوئی پیشہ ذلیل نہیں ہے اور وہ ہے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا۔
افسوس کہ معاش کے ان دونوں اہم ذرائع سے مسلمانوں کا بہت معمولی تعلق ہے اور قومی و بین الاقوامی مارکٹ اور صنعت و حرفت کے میدان پر دوسروں کا قبضہ ہے ، حالانکہ ان پر انسان کی شخصی ، اجتماعی اور دفاعی ضروریات کا انحصار ہے۔

3- زراعت:

کھیتی باڑی ان چیزوں میں سے ہے جس پر انسان کی بنیادی ضرورت کا دارومدار ہے اور سب سے پہلے انسان نے اسی ضرورت کی طرف توجہ کی، ابن خلدون نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے کھیتی حضرت آدم علیہ السلام نے فرمائی اور یہ کوئی بہت مشکل کام بھی نہیں ہے ، کھیتی کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے خود اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام کر رکھاہے، یعنی کاشت کے لائق زمین بنائی اور اس کی سیرابی کے لیے بارش نازل کی اور نہریں جاری کیں اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ما من مسلم یغرس غرسا أو یزرع زرعا فیاکل منہ طیر أو انسان الا کان لہ بہ صدقۃ۔(صحیح بخاری/458)
مسلمان جو پودا لگاتا ہے یا کھیتی کرتاہے اور اس میں سے پرندے یا انسان کچھ کھا لیتے ہیں تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔

4- ملازمت:

کسی کے یہاں مزدوری کرکے معاش کو حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور نہ کسی طرح کی ذلت و حقارت ،چاہے کسی حکومت کے ماتحت ہو یا کسی ادارے اور شخص کے ماتحت، قرآن میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ یا دس سال تک ایک صاحب کے یہاں مزدوری کی اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی نبی بھیجے ہر ایک نے بکری چرائی، صحابہ نے پوچھا: آپ نے بھی، فرمایا:ہاں، میں بھی چند قیراط کے بدلے بکریاں چرایا کرتا تھا۔(صحیح بخاری/443کتاب الاجارہ)
طلب معاش میں اعتدال
قرآن حکیم میں ایسے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو تجارت وغیرہ میں مشغولیت کے باوجود ذکر الٰہی ، نماز اور زکات کی ادائیگی سے غافل نہیں ہوتے۔(سورۃ النور:34) اور ایسی دولت نیز اس کے لیے کوشش کی برائی کی گئی ہے جو انسان کو اللہ سے غافل کردے۔(سورۃ التکاثر:1 ) یا بخل اور کنجوسی کی وجہ سے اپنے ہاتھ کو باندھ رکھے۔(سورۃ محمد:4) یا باطل اور غلط راستے سے حاصل کرے(سورۃ البقرہ:188) حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ قرآن میں دنیا کو دھوکہ کا سامان کہاگیا ہے ، اس سے مراد وہ دنیا ہے جو انسان کو طلب آخرت سے روک دے، لیکن اگر وہ اللہ کی رضامندی اور آخرت کا ذریعہ ہوتو بہترین زادراہ ہے۔ (نعم المتاع ونعم الوسیلۃ۔روح المعانی185/24)
بعض روایتوں میں کھیتی باڑی کی مذمت کی گئی ہے ، اس سے مراد بھی اس درجہ اس میں انہماک ہے کہ اس کی وجہ سے دینی فرائض سے غفلت پیدا ہوجائے.(صحیح بخاری /458باب ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع أو مجاوزۃ الحد الذی امر بہ )
اس لیے آپ ﷺ نے فرمایاکہ جو مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا لہٰذا روزی کی تلاش میں
اعتدال سے کام لو۔( فاجملوا فی الطلب.مجمع الزوائد 71/4)نیزآپ ﷺ یہ دعافرماتے تھے۔
اللھم لاتجعل الدنیا اکبرھمنا ولا مبلغ علمنا
اے اللہ ہماری زیادہ تر فکر اور کوشش کو دنیامیں نہ لگا ، اور نہ اسے ہمارے علم کی انتہاء بنا۔

معاشیات کی تعلیم:

معاشیات کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اپنے نبیوں کو دی ہے جیساکہ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ارشادہے کہ ہم نے انھیں زرہ بنانے کی تعلیم دی (وعلمناہ صنعۃ لبوس) اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ کیاجاسکتاہے اور یہ ایک فطری ضرورت کی تعلیم ہے جس کی فضیلت اور فرضیت سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے۔ چنانچہ امام غزالی لکھتے ہیں:
فرض کفایہ ہر وہ علم ہے جس سے انسان دنیاوی معاملات میں بے نیاز نہیں ہوسکتاہے جیسے کہ علم طب، جسم کی بقا کے لیے ضروری ہے اور حساب دانی ، وصیت، میراث اور معاملات کے لیے ضروری ہے اور یہ ایسے علوم ہیں کہ اگر کسی جگہ اس کے جاننے والے موجود نہ ہوں تو لوگ پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے ۔ اس لیے اس پر تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ ڈاکٹری اور حساب کا علم فرض کفایہ ہے اور بنیادی نوعیت کی صنعتیں بھی فرض کفایہ ہیں جیسے کھیتی کرنا، کپڑے بننا، جانوروں کی دیکھ ریکھ ، بلکہ سلائی کرنا اور پچھنا لگانا بھی۔(احیاء علوم الدین 7/1)
معاشیات بھی ان علوم میں سے ہے جن میں مسلمانوں نے دنیا والوں کی امامت کی ہے اور اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں۔ چنانچہ امام محمد کی ’’کتاب الکسب‘‘ معاشیات کی پہلی اور بنیادی کتاب ہے لیکن اس میدان میں مسلمان آج کہاں ہیں؟ یہ غوروفکر کا بھی موضوع ہے اور عملی طور پر کچھ کر گذرنے کا بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے