سوانحی خاکہ:

نام و نسب:عبد الحلیم بن محمد شفیع

جائے ولادت:موضع دیوریا ضلع امبیڈکر نگر (فیض آباد)

تاریخ پیدائش: 1908ء۔

تعلیم: فاضل مظاہر علوم سہارنپور ۔

جائے وفات و تدفین: مدرسہ ریاض العلوم گورینی جونپور ۔یوپی

 

خسرو محفل زھاد گیا

 

 

"ریاض العلوم” شیراز ہند جونپور کا ایک معروف اور ممتاز دینی ادارہ ہے،آج سے 26 سال پہلے حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالحلیم صاحب رح(خلیفہ و مجاز مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری برد اللہ مضجعہ و شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ) نے شاہ گنج،جونپور شاہراہ پر ایک ویرانے کو علم و فضل سے آباد اور زمین شور کو لالہ و گل سے شاداب کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ اس کوشش میں اتنا کامیاب ہوئے کہ تخمین و اندازے ششدر رہ گئے, وہ خطہ جو ہر اعتبار سے پچھڑا ہوا اور آبادی سے دور تھا، نہ وہ قابل سکونت تھا اور نہ قابل کاشت ،جہاں دن کی روشنی میں قافلے لٹ جاتے تھے،ایسی جگہ پر انہوں نے علم دین کا ایک پودا لگایا،دیکھنے والے حیران تھے کہ اس بنجر زمین میں یہ پودا کیا شاداب درخت بن سکے گا؟چوروں اور قزاقوں کی اس گزرگاہ میں علم و دین کا یہ سرمایہ محفوظ رہ سکے گا؟اس ویرانے میں کون پڑھنے آئے گا؟بے سر و سامانی کے عالم میں یہ ادارہ کتنے دنوں تک چل پائے گا؟

مگر وہ اپنے دھن کے پکے تھے،اعتماد علی اللہ کا بہترین اسلحہ ان کے پاس تھا،دعا و انابت کا عظیم سرمایہ انہیں حاصل تھا،اخلاص و للہیت کی دولت سے وہ مالا مال تھے ، اس لیے

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق*

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودا ایک تناور درخت بن گیا،علوم نبوت کے پروانے ہر چہار جانب سے اس روشنی پر ٹوٹ پڑے، اس چشمہ شیریں پر تشنگان علوم نبوت کا تانتا بندھ گیا، ریاض العلوم آج ایک عظیم جامعہ بن چکا ہے، اور رشد و ہدایت،اور دعوت و تبلیغ کا ایک اہم اور بافیض مرکز ہے،ریاض العلوم نے تعلیم و تربیت کا جو معیار پیش کیا اس نے کچھ ہی عرصے میں اس ادارے کو ملک اور بیرون ملک نمایاں اور ممتاز کر دیا،حضرت والا نے منتخب،ذی استعداد اساتذہ کی ایک محفل بنائی، حسین اور چنیدہ پھولوں کا ایک گلدستہ سجایا جس نے اس ویرانے کو زعفران زار بنا دیا۔

میں نے اپنی تعلیمی زندگی کے پانچ سال یہیں گزارے ہیں،پرائمری کے بعد والدین نے اگلے مرحلے کے لیے میرے واسطے دینی تعلیم کو منتخب کیا،اس وقت میرے گاؤں فتح پور تال نرجا کے متعدد طلبہ گورینی پڑھتے تھے،اس لیے مجھے بھی شوق ہوا کہ گورینی میں تعلیم حاصل کروں ،چنانچہ ایک قریبی رشتہ دار کے ہمراہ جو مدرسہ میں مطبخ سے متعلق ہیں ریاض العلوم گورینی چلا آیا ،مدرسہ میں جس وقت داخل ہوا وہ لمحہ اپنی کیفیات کے ساتھ آج بھی یادداشت کے خانے میں محفوظ ہے،مدرسہ کی بلند و بالا اور خوبصورت و پر شکوہ دو منزلہ عمارت کو دیر تک حیران و ششدر کھڑا دیکھتا رہا،رفیق سفر کے ٹوکنے پر سحر زدگی کی یہ کیفیت ختم ہوئی اور ان کے ساتھ روانہ ہو گیا،عصر کی اذان ہو چکی تھی جس کی وجہ سے دفاتر بند تھے،عصر کے بعد ایک صاحب سے۔۔۔۔۔غالبا ان کا نام منشی محمد ہاشم تھا اور پرائمری میں ہیڈ ماسٹر تھے ۔۔۔۔۔۔۔ملاقات ہوئی،انہوں نے پوچھا کس مقصد سے آئے ہو؟کیا پڑھ کے آئے ہو؟کس درجہ میں داخلہ لینا ہے؟میں نے صورتحال بتلادی تو حساب اور جغرافیہ سے متعلق کچھ سوالات کیے اور میرے جواب سے مطمئن اور بہت خوش ہوئے،کہنے لگے کہ تمہارا داخلہ بس ہو ہی چکا ہے،دوسرے دن ان کرم فرما کے کہنے پر رسمی کاروائی کے بعد درجہ فارسی میں داخلہ منظور کر لیا گیا،اور ایک ہفتہ کے وقفے سے پڑھائی شروع ہو گئی۔

اساتذہ و طلبہ تدریس و تعلیم میں مشغول و منہمک ہو گئے مگر ہر ایک اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کرتا تھا،ایسا لگتا تھا کہ باب و ودر کسی کے لیے سراپا انتظار ہوں۔اساتذہ کی محفلوں میں ان کے تذکرے اور ان کی آمد کے چرچے ہوتے،طلبہ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ بڑے مولانا کب آئیں گے؟ان تذکروں کی وجہ سے میں بھی اس نادیدہ شخص کے لیے سراپا انتظار بن گیا،نام تو بارہا سنا تھا بلکہ اس وقت سے سنتا آرہا تھا جبکہ شعور کی منزل سے دور تھا،والد مرحوم حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری کے تربیت یافتہ تھے اور حضرت والا سے بھی خصوصی ربط تھا،اس لیے جب بھی حضرت مصلح الامت کا تذکرہ ہوتا تو اسی کے ساتھ لازما حضرت والا کا ذکر بھی آتا ،ان کے حلم و بردباری کے واقعات سنائے جاتے ہیں،حضرت مصلح الامت کی ان پر خصوصی عنایات اور نوازشات کے تذکرے ہوتے،ان کی بلند نظری،عالی ہمتی ،اور عزم و حوصلہ کی تعریف کی جاتی،ان سب باتوں کی وجہ سے میرے ذہن و دماغ نے حضرت والا کی ایک خیالی تصویر بنا لی تھی اور جب انتظار کی گھڑی بیت گئی اور دل و دماغ کی نگاہوں کے بجائے چشم سر سے انہیں دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ میں تو انہیں بارہا دیکھ چکا ہوں۔دست قدرت نے میرے خیال و تصور کا پیکر تراش کر میرے سامنے لا کھڑا کیا ہو۔ایسا لگا کہ خواب و خیال کی دنیا میں کوئی خوبصورت سا سپنا دیکھ رہا ہوں،ایک سراپا نورانی جسم،نکلتا ہوا قد،کتابی چہرہ اور اس پر ہلکی سی خوبصورت داڑھی،کشادہ پیشانی، نکھرا ہوا گندمی رنگ، صاف ستھری اور اجلی پوشاک،سر سے لگی ہوئی گول ٹوپی گویا کہ کوئی آسمانی مخلوق زمین پر اتر آئی ہو،مگر یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی اور میں نگاہیں میچ میچ کر اس حقیقت کو دیکھنے میں محو ہو گیا،اور نگاہ کے راستے یہ حقیقت دل میں اترتی چلی گئی۔میری اور میرے وطن طلبہ کی خواہش تھی کہ حضرت والا سے خصوصی ملاقات کی جائے،مگر اس کے لیے موقع کیسے میسر ہو؟قدیم طلبہ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت والا مغرب بعد دیر تک نوافل و وظائف میں مشغول رہتے ہیں, اس لیے مسجد کے کنارے برآمدے میں انتظار کرو،گھر جاتے ہوئے ملاقات ہو جائے گی،چنانچہ نوافل وغیرہ سے فراغت کے بعد حضرت والا گھر تشریف لے جانے کے لیے باہر نکلے تو ہم لوگ لپک کر پہنچے،سلام و مصافحہ کے بعد تعارف ہوا،فتح پور تال نرجا کا نام سن کر فرحت و انبساط کی وجہ سے رخ انور گلاب کی طرح کھل اٹھا اور فرمایا کہ تم لوگ یہاں کی تعلیم و تربیت کے زیادہ حقدار ہو کیونکہ یہاں جو کچھ ہے وہ فتح پور‌ ہی سے حاصل کردہ ہے،

حضرت والا کے رخ انور کو دیکھ کر اندر سے یہ آواز آتی تھی کہ یہ چہرہ کسی بندہ حق آگاہ کا چہرہ ہے،جس سے تجلیات حق عیاں،وقار و تمکنت، سنجیدگی و فراست ،ذہانت و بصیرت نمایاں اور ملک و ملت کے لیے فکر مندی اور دل سوزی ظاہر ہوتی تھی،وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے،گفتگو کا انداز بڑا دلکش اور موہ لینے والا تھا،ٹھر ٹھر کر آہستہ بات کرتے،میں نے ہمیشہ انھیں تبسم آمیز گفتگو کرتے ہوئے پایا یقینا وہ اقبال کے اس شعر کا مصداق تھے

نگہ بلند ،سخن دل نواز ،جاں پرسوز *

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے۔

انسانیت کا کمال عبدیت ہے،بندگی ،خود سپردگی، اور فدا کاری ہی انسان کی معراج ہے اور عبدیت کا اعلی مظہر تواضع اور انکساری ہے،جس کے اندر جتنی عبدیت ہوتی ہے وہ اتنا ہی متواضع اور منکسر المزاج ہوتا ہے،حضرت والا کو قریب سے دیکھنے پر اندازہ ہوتا تھا کہ آپ میں یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے،فروتنی اور خاکساری، بے نفسی و انکساری، آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،کسی بھی گوشہ سے کبر اور احساس برتری کی بھنک نہیں مل پاتی تھی،ہر ایک کے لیے بچھے جا رہے ہیں،کسی کا دل توڑنا گوارا نہیں، کسی کے شیشہ خودی کو ٹھیس پہنچ جائے یہ برداشت نہیں،ہر ایک سے اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آتے ،اور ایذا پہنچانے والے قول و فعل سے اجتناب کرتے،ہر ایک سے اس طرح ملتے کہ وہ محسوس کرتا کہ حضرت والا کو سب سے زیادہ تعلق مجھ ہی سے ہے،آپ کی اس صفت کی وجہ سے ہر ایک آپ کی طرف کھینچا چلا آتا ،صادق و مصدوق کا قول ہے :

من تواضع لله رفعه الله ۔

جو اللہ کے لیے جھکتا ہے اللہ اسے اونچا اٹھا دیتے ہیں،

( أخرجه الطبراني في «المعجم الأوسط» (7711)، والبيهقي في «شعب الإيمان» (8144) مطولًا، وأبو نعيم في حلية الأولياء46/8 واللفظ له •)

اس تواضع کی وجہ سے آپ کو اللہ نے اتنا اونچا اٹھایا کہ آپ کی زندگی سالکین راہ حقیقت کے لیے باعث رشک ہو گئی۔

تزکیہ و احسان کے منازل و مراتب سے نہ تو پہلے واقف تھا اور نہ ہی اس وقت کوئی آگاہی ہے کہ حضرت والا کے مقام و مرتبہ کو جان سکوں،پر ایک حدیث پڑھی ہے اور جاننے والے کہتے ہیں کہ تزکیہ و احسان کا یہی مقصود ہے اور یہی مطلوب ہے ،وہ حدیث یہ ہے:

عن ابی هريرة رضي الله تعالى عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم بارزا يوما للناس فاتاه رجل فقال ما الايمان قال الايمان وان تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسوله وتؤمن بالبعث،قال ما الاسلام قال ان تعبد الله ولا تشرك به وتقيم الصلاة وتؤدي الزكوة المفروضة وتصوم رمضان،قال ما الاحسان قال ان تعبد الله كانك تراه فان لم تكن تراه فانه يراك۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول لوگوں کے درمیان نمایاں طور پر تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ ایمان کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تم اللہ ،اس کے فرشتوں ،اس سے ملاقات، اور اس کے رسولوں اور حشر و نشر پر یقین رکھو،اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو،اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ،نماز قائم کرو ،فرض زکوۃ ادا کرو، رمضان کا روزہ رکھو، اس نے دریافت کیا : احسان کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ اسے دیکھ رہے ہو،پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔(صحيح بخاري :50صحيح مسلم :9)

حضرت والا کی نماز احسان کی اس کیفیت کی حامل ہوا کرتی تھی،جب وہ نماز پڑھتے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی غلام دست بستہ اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہے،نہایت ہی اطمینان اور خشوع خضوع کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے،ان کی نماز دیکھ کر صحابہ کرام کی یاد آجاتی تھی کہ ان کی نمازوں کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ دوران قیام اس طرح بے حرکت رہتے کہ گویا ان کے سروں پر چڑیا بیٹھی ہے اور ذرا سی حرکت میں اس کے اڑ جانے کا اندیشہ ہو،

ان کی پوری زندگی احسانی کیفیت اور بندگی سے عبارت تھی اور دیگر لوگوں میں بھی یہی کیفیت لانے کی کوشش کیا کرتے تھے، چنانچہ ان کے بیشتر وعظ اور تقریریں اسی موضوع سے متعلق ہوا کرتی تھی،وہ اپنی تقریروں میں بکثرت یہ شعر پڑھا کرتے تھے

زندگی آمد برائے بندگی *

زندگی بے بندگی، شرمندگی۔

حضرت والا طبعی طور پر گوشہ نشینی کے دلدادہ تھے (جو خانقاہیت کے مزاج میں شامل ہے) مگر امت کا غم انہیں چین سے ایک جگہ بیٹھنے نہ دیتا اس لیے ضعف و نقاہت اور علالت کے باوجود ملک کے طول و عرض کی خاک چھانتے پھرتے،طویل سفر کر کے لوگوں کو دین کی دعوت دیتے، وعظ و نصیحت کرتے، وہ خانقاہیت اور تبلیغی تحریک کے جامع تھے،دونوں کو ساتھ لے کر چلتے اور اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کر گئے کہ دونوں میں کوئی دوری ،ٹکراؤ اور تناؤ نہیں ہے،وہ تبلیغی دورے بھی کرتے، اور خانقاہ بھی آباد کرتے،ہر ہفتہ جمعرات کو بعد نماز ظہر مدرسہ کی مسجد میں تقریر کیا کرتے تھے،جس میں طلباء و اساتذہ کے علاوہ قرب و جوار کے متعلقین بھی شریک ہوا کرتے تھے،آپ کی تقریر سادہ مگر پراثر اور بصیرت افروز ہوا کرتی تھی،شور اور گھن گرج کے بجائے دریا کی سی روانی اور سلاست لیے ہوتی،ایسی تقریر جو عوام کے لیے چراغ ہدایت ہوتی تو علماء کے لیے اس کے ساتھ ہی علمی جواہر پاروں سے لبریز، اور سوز و درد کی آنچ شرکاء مجلس کے دلوں کو گرما جاتی،خوف و خشیت اور رشد و ہدایت کی باد بہاری چلنے لگی،علم و عرفان اور محبت و یقین کے چشمے ابل پڑتے،

اف ر ے گرمی محبت کے تیرے سوختہ جاں *

جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اٹھے.

نیک اعمال کی طرف راغب کرنے اور آخرت کی شوق و جستجو کے لیے جب وہ جنت اور اس کی نعمتوں کی منظر کشی کرتے تو ایسا لگتا کہ سامعین اسے نگاہوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، جنت کے حقیقت بیان کرتے ہوئے اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے

بہشت آنجا کے آزارے نباشد* کسے را با کسے کارے نباشد.

تصوف و طریقت اور تزکیہ و احسان کو کچھ لوگوں نے چند رسوم و رواج کا مجموعہ بنا رکھا ہے،ان میں ظاہر داری اور رکھ رکھاؤ کا بڑا اہتمام ہوتا ہے،اور وہ اسی کو حاصل دین اور مقصود شریعت سمجھتے ہیں،حضرت والا ایسے لوگوں سے بیزار تھے،اور جہاں اپنے متعلقین میں اس چیز کو محسوس کرتے موقع پر ہی گرفت فرماتے،ایک مرتبہ دارالحدیث کے وسیع حال میں طلبہ کی انجمن کا اختتامی پروگرام ہو رہا تھا،حضرت والا بھی تشریف فرما تھے اسی دوران ایک استاد تشریف لائے اور اساتذہ کے لیے مخصوص جگہ پر بیٹھنے کے بجائے طلبہ کی صف میں بیٹھ گئے،حضرت والا نے یہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا تصوف کی دو قسمیں ہیں، حقیقی تصوف اور چمر تصوف،اپنی جگہ چھوڑ کر بتکلف اظہار تواضع کے لیے دوسروں کی جگہ بیٹھنا چمر تصوف ہے،گویا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اوپر یا نیچے بیٹھنا تواضع اور تصوف نہیں ہے، تواضع اور انکساری تو دل کی صفت ہے،اگر دل کے اندر یہ موجود ہے تو کسی اونچی جگہ بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن اگر دل اس سے خالی ہے اور اس کی جگہ کبر بھرا ہوا ہے تو پھر نیچے بیٹھنا محض تواضع کا دکھاوا ہے اور دوہرا جرم ہے ،افسوس کے لوگ اسی طرح کے چند رسوم کو تصوف سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ اندرون کسی جذبہ سے بالکل خالی ہوتا ہے۔

قدرت کے فیاض ہاتھوں نے حضرت والوں کو گوناگوں خصوصیات سے نوازا تھا،آپ کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ مجھ جیسے نارسا اور بے صلاحیت کے لیے بڑا دشوار ہے،تا ہم طالب علمی کے دور غفلت میں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اس کی روشنی میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اپ کی پوری زندگی مجاہدہ و ریاضت ،جدوجہد، محنت و مشقت جفا کشی جانفشانی، اور قربانی سے عبارت ہے۔وہ خلوص و للہیت ،بندگی و سرافگندی، تسلیم و رضا، صبر و قناعت، اور علم معرفت کے پیکر تھے،درد مندی و دل سوزی،خاکساری و انکساری،عجز و فروتنی کے پتلے تھے،اور کمزور و ضعیفوں کی پناہ گاہ۔ مصیبت زدہ کی دستگیری فرماتے،کسی کو دکھ درد میں مبتلا دیکھ کر تڑپ اٹھتے،اس کے درد کو اپنا درد اور اس کے غم کو اپنا غم محسوس کرتے،اپ ان لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق شاعر نے کہا ہے :

پھونک کر اپنے آشیانے کو *

بخش دی روشنی زمانے کو۔

امت کی اصلاح اور نفع رسانی کی خاطر اپنی جان کو جو کھم میں ڈالتے اور ہر طرح کی تکلیف و پریشانی کو بخوشی گوارا کر لیتے،اور صحت کی پروا کیے بغیر دور دراز علاقوں کا سفر کرتے،آپ ایک بلند پایہ عالم بھی تھے اور عظیم مجاہد بھی،مدرس بھی اور مربی بھی ،داعی و مصلح اور مرشد بھی۔

چھوٹوں پہ شفقت اور خورد نوازی آپ کی نمایاں خصوصیت ہے،طلبہ و اساتذہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور ان کی آسانی و سہولت اور آرام و راحت کا بڑا خیال رکھتے تھے،اور ان کے علمی ترقی کے لیے برابر کوشاں رہتے،مدرسہ کی عمارت سے زیادہ اس کے کتب خانہ کو بڑھانے کی فکر رہا کرتی تھی،مدرسہ کی فضا اور ماحول کو ایسا علمی بنایا کہ جویائے علم وہاں پہنچ کر محسوس کرتا کہ وہ علم و تحقیق سے لبریز ایک دنیا میں آگیا ہے،

خدمت خلق اور مہمان نوازی آپ کی فطرت میں رچی بسی تھی،نرم مزاجی اور ملنساری، مروت و شرافت کا مجسم نمونہ تھے،صلہ اور ستائش کی پرواہ کیے بغیر ہر ایک کی خاطرداری فرماتے،غرضیکہ وہ اخلاق نبی اور اسوہ صحابہ کی جیتی جاگتی تصویر تھے،وہ ان لوگوں میں سے تھے جن پر زمین و آسمان فخر کرتے ہیں،وہ رشدوہدایت کے آفتاب تھے جو اپنی ضیاپاش کرنوں سے ایک عالم کو منور کر رہا تھا،وہ جس جگہ قدم رکھتے وہاں خدا پرستی، بندگی و تقوی کی مشک بار ہوائیں چلنے لگتی،ان کی صحبت کے اثر سے برسوں کا پاپی متقی اور پرہیزگار بن جاتا،ان کی خداداد بصیرت و فراست کے ذریعے زندگی کے لاینحل مسائل حل ہوتے تھے،

افسوس کہ اس متاع گراں مایہ سے ہم محروم ہو گئے،حضرت والا کی علالت اور کبرسنی کی وجہ سے جو حادثہ احساس کی شکل میں ذہن میں رہا کرتا تھا وہ 10 محرم الحرام1420.مطابق27اپریل 1999ء کو حقیقت بن کر پیش اگیا،وہ ایک عالم کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے،مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے ایک استاد کے ذریعے انتقال کی خبر ملی،خبر کیا تھی ایک بجلی تھی جس نے عقل و ہوش کو پھونک کر رکھ دیا، آہ وہ ہم سے کیا جدا ہوئے کہ محفل عالم سونی ہو گئ،رشد و ہدایت کا وہ چشمہ خشک ہو گیا جس سے ایک عالم سیراب ہو رہا تھا،وہ زمانے بھر کا ادب آموز خاموش ہو گیا جس کی آواز سے ہزاروں جسموں میں زندگی دوڑ رہی تھی،جس کے ایک زندگی میں ہزاروں زندگیاں پنہاں تھی ۔

حضرت والا اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کے وجود کی خوشبو تا قیامت فضاؤں میں رچی بسی رہے گی ،وہ جسد خاکی کے ساتھ ہمارے سامنے نہیں رہے لیکن ان کی یاد سے دل کی دنیا آباد رہیگی،ان کی تعلیمات زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی بن کر ہمیں راہ دکھلاتی رہیں گی،اور ان کے وجود کا نور چاند کی طرح دمکتا رہے گا،اور نشان راہ بن کر ہمیں منزل کا پتہ دیتا رہے گا،

یہ کمال زندگی ہے جب آفتاب ڈوبے*

تو فلک کو نور دے کر نئی انجمن سجا دے۔

ضرورت ہے کہ ان کی تعلیمات و ارشادات کی اچھے انداز میں نشر و اشاعت کی جائے اور ان کی امانت ریاض العلوم کی حفاظت اور اس کی ظاہری و معنوی ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔

(شائع شدہ ماہنامہ ریاض الجنہ کا مرشد امت نمبر۔جولائی-نمومبر ۔1999)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے