نماز اشراق
ولی اللہ مجید قاسمی
طلوع آفتاب کے بعد لوگوں میں دو نمازیں مشہور ہیں، نماز اشراق ، نماز چاشت، عام طور سے فقہاء ومحدثین دونوں کو ایک نماز شمار کرتے ہیں، ایک ہی نماز کو کبھی چاشت کہدیا گیا، اور کبھی اشراق ۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
لم یزل فی نفسی من صلوۃ الضحی شئی حتی قرأت وسخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والاشراق، وھذہ صلوۃ الاشراق۔(مصنف عبدالرزاق ۔79/3)
میرے دل میں ہمیشہ نماز چاشت کے بارے میں کچھ کھٹک رہی یہاں تک کہ میں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی :ہم نے پہاڑوں کو اس کام پر لگا دیا تھا کہ وہ شام کے وقت اور سورج کے نکلتے وقت ان کے ساتھ تسبیح کیا کریں۔اور یہی نماز اشراق ہے ۔
صوفیا کے یہاں علیٰحدہ علیٰحدہ دونمازیں ہیں، ماضی قریب کے مشہور فقیہ علامہ طحطاوی کا رجحان بھی یہی ہے۔ ( وھی ای صلوۃ الضحی غیر صلوۃ الاشراق وھی رکعتان کما وردفی بعض الآثار (طحطاوی علی الدر 187/1)
محدثین میں سے سیوطی ، علی متقی اور دارمی نے ان دونوں کا تذکرہ دو مستقل نمازوں کی حیثیت سے کیا ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھی یہ دو الگ الگ نمازیں ہیں۔(معارف السنن 266/4)
احادیث سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ یہ دونوں مستقل اور الگ الگ نمازیں ہیں ، مثلاً حضرت علی سے منقول یہ حدیث :
اذاکان صلی الفجر امھل حتی اذا کانت الشمس من ھاھنا یعنی من المشرق مقدار ھا من صلوۃ العصر من ھاھنا قبل المغرب فصلی رکعتین ، ثم یمھل حتی اذا کانت الشمس من ھاھنا یعنی من قبل المشرق مقدارھا من صلاۃ الظھر من ھا ھنا یعنی من قبل المغرب فصلی اربعاً ، واربعاً قبل الظھر اذا زالت الشمس ورکعتین بعد ھا واربعاً قبل العصر …(رواہ الخمسہ الااباداود، الحدیث حسنہ الترمذی، واسانیدہ ثقات،وعاصم بن جمرہ فیہ مقال لکن قدوثقہ ابن معین وعلی المدینی (نیل الاوطار 67/3)
آنحضرت ﷺ فجر کی نماز پڑھ کر رکے رہتے یہاں تک کہ جب آفتاب مشرق کی جانب ایسا ہوتا جیسا کہ عصر کے وقت مغرب کی جانب ہوتا ہے تو اس وقت دو رکعت پڑھتے اور جب آفتاب مشرق کی جانب ایسا ہوتا جیسا کہ ظہر کے وقت مغرب کی جانب ہوتا ہے تو اس گھڑی چار رکعت پڑھتے ، اور ظہر سے پہلے سورج کے ڈھل جانے کے بعد چار رکعت اور دورکعت ظہر کے بعد اور چار رکعت عصر سے پہلے پڑھاکرتے۔
سنن نسائی میں روایت کے الفاظ یہ ہیں:
کان النبیؐ اذا زالت الشمس من مطلعھا قدرمح او رمحین کقدرصلاۃ العصر من مغربھا صلی رکعتین ثم اھمل حتی اذا ارتفع الضحی صلی اربع رکعات۔ ( اعلاء السنن 25/7)
اس روایت میں زوال سے پہلے دو نمازوں کا تذکرہ ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زوال سے پہلے دو نمازیں مسنون ہیں ایک سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد،دوسری نماز سورج کے کچھ زیادہ اوپر چڑھ آنے کے وقت۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:
یاابن آدم ارکع لی اربع رکعات من اول النھار اکفک آخرہ (رواہ الترمذی وقال حسن روی احمد ورواتہ کلھم ثقات۔ اعلاء السنن 24/7۔ وروی ابوداؤد باسناد صحیح۔ شرح مھذب 39/4)
اے آدم کے بیٹے ! تو دن کے شروع میں چار رکعت پڑھ لے میں دن کے آخری حصے میں تیری کفایت کرونگا۔
’’دن کے آخری حصہ میں تیری کفایت کرونگا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی صبح کو یہ نماز پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس دن کے تمام مسائل کوحل کردیں گے، اس کی تمام ضروریات زندگی پوری ہوجائیں گی اس طرح کہ شام کے وقت اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
حضرت ابوامامہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذاطلعت الشمس من مطلعھا کھیئتھا لصلاۃ العصر حین تغرب من مغربھا فصلی رجل رکعتین واربع سجدات فان لہ اجر ذالک الیوم وکفر عنہ خطیتہ واثمــــــــہ وان مات من یومہ دخل الجنۃ (رواہ الطبرانی واسنادہ مقارب ۔الترغیب 237/1)
جب سورج اپنی جگہ سے اتنا نکل جائے جتنا کہ عصر کی نماز کیلئے ڈوبنے کے وقت ہوتا تو اس وقت کوئی دورکعت اور چار سجدے کرے تو اس کیلئے اس دن کاثواب ہے اور اس کی غلطی اور گناہ کو معاف کردیا جائے گا اور اگر اس دن مرجائے تو جنت میں داخل ہوگا۔
وقت اور تعداد رکعت :
یہ نماز وقت مکروہ نکل جانے کے بعد فوراً پڑھی جائے گی اور آخری وقت دن کے چوتھائی حصے تک ہے۔ (لامع الدراری92/2)
نماز اشراق دورکعت سے لے کر چھ رکعت تک پڑھی جاتی ہے۔ ( مظاہرحق جدید 182/1)
جائے نماز پر بیٹھے رہنا :
فجر کی نماز پڑھ کر جائے نماز پر بیٹھے رہنا یہاں تک کہ سورج نکل آئے پھر نماز چاشت یا اشراق پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے، حضرت معاذ بن انس نبی ﷺ کایہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
من قعد فی مصلاہ حین ینصرف من صلوۃ الصبح حتی یسبح رکعتی الضحی لایقول الا خیرا غفرلہ خطایاہ وان کانت اکثر من زبد البحر (رواہ ابوداود وسکت 182/1 قال العراقی اسناد ضعیف۔ نیل الاوطار 61/3)
جوکوئی صبح کی نماز پڑھ کر جائے نماز پر بیٹھا رہے یہاں تک کہ نماز چاشت پڑھ کر وہاں سے اٹھے ، اس دوران وہ بہتر بات ہی کرتا رہا (لغو و بیکار گفتگو سے پرہیز کیا) تواس کی خطائیں معاف کردی جائیں گی اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہوں۔
اس حدیث میں لفظ ’’الضحیٰ‘‘ کے بارے میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ یہاں ’’ضحٰی ‘‘ سے مراد ’’ضحوہ صغری‘‘ (نماز اشراق ) ہے۔ (اشعۃ اللمعات 569/2)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
من صلی الصبح فی جماعۃ ثم قعد یذکر اللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجر حجۃ وعمرۃ (رواه الترمذی وقال حسن رواہ الطبرانی بمعناہ واسنادہ جید ۔اعلا السنن 25/7۔ صحیح الجامع ۔2346)
جو شخص صبح کی نماز جماعت سے پڑھ کر (اپنی جگہ) پر بیٹھا اللہ کو یاد کرتا رہا ، یہاں تک کہ سورج نکل آیا پھر اس نے دو رکعت پڑھی تواسے حج وعمرہ کے بقدر اجر ملے گا۔
تاہم کسی دینی کام یا ضروریات زندگی کی وجہ سے اس جگہ سے اٹھ جانے اور ضرورت سے فارغ ہوکر دنیاوی کام میں مشغول ہونے سے پہلے یہ نماز پڑھ لینے پر بھی مکمل ثواب ملے گا، ملاعلی قاری لکھتے ہیں:
’’یعنی مسجد یا جائے نماز پر بیٹھا رہے ، لیکن طواف ، طلب علم اور مجلس وعظ میں جانا اس کے منافی نہیں بلکہ اگر وہ گھر لوٹ آئے اور برابر ذکر میں مشغول رہے (یہاں تک کہ سوج نکل آئے پھر نماز پڑھے) تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔( المرقات 24/2 ،باب الذکر بعد الصلوۃ )
شیخ عبدالحق محدث دہلوی کچھ مزید تفصیل بیان کرتے ہیں:
اس حدیث میں اسی جگہ بیٹھنے کی شرط ہے، پس اگر وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ رہے تو یہ ثواب نہیں ملے گا، حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے،البتہ اگر دکھاوا اور ریاکاری سے بچنے اور دل کو اللہ کی طرف متوجہ رکھنے کی غرض سے وہاں سے اٹھ جائے اور کسی دوسری جگہ جاکر بیٹھ رہے تو یہ اٹھنا اس عبادت کی تکمیل کے حکم میں ہے اور بھلی بات کہنے کی طرح ہے، اوربعض محققین کا خیال ہے کہ ذکر اور تنہائی میں بیٹھنے کا ثواب تو ہے، لیکن اس خاص جگہ پر بیٹھنے کا ثواب شاید اسی جگہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ (شرح سفر السعادہ/ 151)