بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(3)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

 

3- ٹورنامنٹ:

 

ٹورنامنٹ میں عام طور پر انٹری فیس کے نام سے ایک متعین رقم ہر ٹیم سے لی جاتی ہے اور اس کے بغیر کوئی ٹیم مقابلے میں شریک نہیں ہوسکتی ہے اور پھر جیتنے والی ٹیم اور اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کو انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔

ٹورنامنٹ کی موجودہ شکل جوا اور قمار کے دائرے میں داخل ہے اس لئے ناجائز ہے کیونکہ ہر ایک فریق ایک معمولی رقم اس امید پر داؤ پر لگاتا ہے کہ اگر جیت گیا تو ایک بڑی رقم ہاتھ آئیگی اور اگر ہار گیا تو معمولی رقم ضائع ہوگی اور اسی کا نام جوا اور قمار ہے ۔

البتہ مقابلہ میں حصہ لینے والی کسی ایک ٹیم سے فیس نہ لی جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ وہ ٹیم دوسری ٹیموں کے برابر ہو اور اس کے جیتنے کی امید ہو ،ایسا نہ ہو کہ بالکل کمزور ٹیم کو فیس سے مستثنی رکھا جائے جس کا ہارنا تقریباً یقینی ہے ۔

اسی طرح سے اگر ہر ٹیم سے میچ پر آنے والے اخراجات کے بقدر فیس لی جائے اور انعام میں اس رقم کو شامل نہ رکھا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔

اور اس صورت میں اگر فیس کی جمع کردہ رقم خرچ سے زیادہ ہو تو بچی ہوئی رقم کو واپس کرنا ضروری ہے ۔اور ٹورنامنٹ کرانے والی کمیٹی کو اسے استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔

ان شرطوں کے ساتھ انعامی مقابلہ صرف انہیں کھیلوں میں جائز ہوگا جو علم و جہاد اور دین کے دفاع میں معاون ہوں۔حدیث گزر چکی ہے کہ انعامی مقابلہ صرف تین چیزوں میں جائز ہے تیر اندازی اور اونٹ یا گھوڑے کے ریس میں۔

أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَا سَبَقَ إِلَّا فِي نَصْلٍ، أَوْ خُفٍّ ، أَوْ حَافِرٍ ".

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ انعامی مقابلہ جائز نہیں ہے مگر تیر اندازی اور اونٹ یا گھوڑے کی دوڑ میں ۔(ترمذي: 1700 ابوداؤد: 2574).

اور مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں:

۔۔۔مما ليس من عدة الحرب ولا من باب القوة على الجهاد ، فأخذ المال عليه قمار محظور۔

جن چیزوں کا تعلق جنگ کی تیاری اور جہاد کے لئے قوت کے حصول سے نہ ہو ان پر مال حاصل کرنا جوا اور ممنوع ہے ۔(تحفۃ الاحوذی ۔حدیث :1700)

اور علامہ خطابی مذکورہ حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:

لا يحل أخذ المال بالمسابقة إلا في هذه الثلاثة وهي السهام والخيل والإبل وقد ألحق بها ما بمعناها من آلة الحرب لأن في الجعل عليها ترغيبا في الجهاد وتحريضا عليه. ‏

مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ کسی دوسری چیز میں مقابلہ کے ذریعے مال حاصل کرنا حلال نہیں ہے ۔اور دوسرے جنگی سازوسامان کو بھی ان تین کے ساتھ لاحق کردیا گیا ہے اس لئے کہ ان پر انعام مقرر کرنے میں جہاد کے لئے راغب کرنا اور ابھارنا ہے ۔(حاشية السندي على النسائي:3585)

وجہ یہ ہے کہ انعامی مقابلہ میں تملیک کی بنیاد چانس پر ہوتی ہے اور کسی چانس پر تملیک کو معلق کرنا اصلا ناجائز ہے؛ اس لئے قیاس کا تقاضا ہے کہ کسی بھی کھیل میں ہار جیت پر عوض لینا جائز نہ ہو لیکن مذکورہ حدیث کی وجہ سے جہاد میں معاون کھیلوں میں خلاف قیاس اسے جائز رکھا گیا ہے ۔(لان جواز الجعل فيما مر انما ثبت بالحديث على خلاف القياس…. والقياس ان لا يجوز لما فيه من تعليق التمليك على الخطر ولهذا لا يجوز في ما عدا الاربع. رد المحتار 664/9)

 

 

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے