بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(22)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242

22- پامال تصویر:

اگر تصویر بے احترامی کی جگہ میں ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے مثلا ایسی چیز پر ہو جس پر لوگ چلتے، بیٹھتے یا سوتے ہوں،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سفر وقد سترت بقرام لي على سهوۃ فيها تماثيل فلما رآه رسول الله صلى الله عليه وسلم هتكه وفي رواية دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم وفي البيت قرام فيه صور فتلون وجهه ثم تناول الستر فهتكه وقال إن شد الناس عذابا يوم القيامه الذين يضاهون بخلق قالت فجعلته وسادة او وسادتين ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس آئے اور میں نے الماری پر تصویر دار پردہ ڈال رکھا تھا آپ نے جب اسے دیکھا تو اسے پھاڑ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور گھر میں ایک پردہ تھا جس میں تصویریں تھیں جسے دیکھ کر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور اسے لے کر پھاڑ دیا اور فرمایا : قیامت میں سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق کی نقالی کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہم نے اس سے ایک یا دو تکیہ بنا لیا۔(صحيح البخاري:٥٩٥٤،٦١٠٩_مسلم:٢٠١٧)
یہی روایت مسند احمد میں ان الفاظ کے ساتھ ہے :
” قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم من سفر وقد اشتريت نمطا فيه صورة فسترته على سهوة بيتي فلما دخل كره ما صنعت وقال أتسترين الجدر يا عائشة ؟! فطرحته فقطعته مرفقتين فقد رايته متكأ على احداهما وفيها صورة ( مسند احمد: ٢٦١٠٣)
رسول ﷲ ﷺ ایک سفر سے واپس آئے ،میں نے ایک تصویر دار پردہ خرید رکھا تھا جس سے میں نے اپنے گھر کی الماری کو ڈھانک دیا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو میں نے جو کچھ کیا تھا اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا۔ آپ نے فرمایا: عائشہ! کیا تم دیواروں کو ڈھانکتی ہو ؟میں نے اسے وہاں سے ہٹا دیا اور اس سے دو تکئے بنا لیے۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے ایک پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جبکہ اس میں تصویر موجود تھی۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:
اسْتَأْذَنَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” ادْخُلْ ". فَقَالَ : كَيْفَ أَدْخُلُ وَفِي بَيْتِكَ سِتْرٌ فِيهِ تَصَاوِيرُ، فَإِمَّا أَنْ تُقْطَعَ رُءُوسُهَا، أَوْ تُجْعَلَ بِسَاطًا يُوطَأُ ؛ فَإِنَّا مَعْشَرَ الْمَلَائِكَةِ لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ تَصَاوِيرُ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے لیے جبرائیل علیہ السلام نے اجازت طلب کی، آپ نے فرمایا اندر آجاؤ۔ انہوں نے کہا میں اپ کے گھر میں کیسے آسکتا ہوں جب کہ پردے میں تصویر لگی ہوئی ہے؟ یا تو اس کا سر کاٹ دیا جائے یا اسے بچھونا بنا لیا جائے جسے روندا جائے کیونکہ فرشتوں کی جماعت ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتی ہے جس میں تصویریں ہوں۔(نسائي:5365)
اور امام ابو داؤد نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں:
وَمُرْ بِالسِّتْرِ فَلْيُقْطَعْ فَلْيُجْعَلْ مِنْهُ وِسَادَتَيْنِ مَنْبُوذَتَيْنِ تُوطَآنِ.
اور پردے کے بارے میں حکم دیں کہ اسے کاٹ کر دو تکیہ بنا لیا جائے جسے زمین پر ڈال دیا جائےاور اسے روندا جائے۔(ابو داؤد: 4158)۔
اور حضرت عکرمہ کہتے ہیں:
كانوا يكرهون ما نصب من التماثيل ولا يرون باسا بما وطئته الاقدام.
صحابہ کرام ان تصویروں کو مکروہ سمجھتے تھے جنہیں کھڑا رکھا جائے اور ایسی تصویروں میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جو قدموں سے روندی جائیں۔(الموسوعہ الفقہیہ119/12)
اور حضرت لیث کہتے ہیں:
دخلت على سالم بن عبد الله وهو متكئ على بساده فيها تماثيل طير ووحش فقلت اليس هذا يكره قال انما يكره ما نصب نصبا.
سالم ابن عبداللہ کی خدمت میں میں حاضر ہوا، اس وقت وہ ایسے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے جس پر پرندے اور وحشی جانور کی تصویر تھی میں نے کہا کیا یہ مکروہ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : مکروہ وہ تصویر ہے جو کھڑی ہو۔(مسند احمد بن حنبل 147/9،ط، احمد شاکر ،وقال اسنادہ صحیح ۔)
کھڑی اور پڑی تصویر کے درمیان فرق کی وجہ یہ ہے کہ کھڑی تصویر کے بارے میں تعظیم کا احساس ہوگا اور وہ بت کے مشابہ ہوگی اور بچھی ہوئی تصویر بت کے مشابہ نہیں ؛ کیونکہ بت پرست اسے کھڑی رکھتے ہیں اور اوندھے منہ اسے نہیں چھوڑتے ہیں۔چنانچہ علامہ شامی تصویر کی ممانعت کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الذي يظهر من كلامهم ان العلة اما التعظيم او التشبه.
فقہا کے کلام سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کی ممانعت کی علت یا تو تعظیم ہے یا بت پرستی کے ساتھ مشابہت۔(رد المحتار 436/1، الموسوعہ 119/12)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے