بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(18)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
7-پرخطر کھیل :
انسان اپنے جسم وجان کا مالک و مختار نہیں ہے کہ جو چاہے کرے، اس کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں، بلکہ وہ اس کے پاس ایک امانت ہے جس کی حفاظت فرض ہے اور اس میں کسی طرح کی خیانت حرام ہے۔
اس کے خالق ومالک نے اسے اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ اپنی جان کو جوکھم میں ڈالے اور اسے خطرات سے دوچار کرے ۔لھذا ایسا کوئی کھیل جس میں جان جانے یا جسم کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجانے کا یقین یا غالب امکان ہو وہ جائز نہیں ہے ۔فرمان باری ہے :
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورہ البقرۃ : 195)
اور دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ۔
وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ عُدۡوَانًا وَّ ظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا۔
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔
اور جو شخص زیادتی اور ظلم کے طور پر ایسا کرے گا، تو ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے، اور یہ بات اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔ (سورہ النسآء: 29۔30)
یہاں تک کہ عبادت و طاعت میں بھی جان کھپانے کی ممانعت ہے،ایک صحابی ہمیشہ روزہ رکھتے اور رات بھر نماز پڑھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے منع کیا اور فرمایا:
” فَلَا تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ ؛ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا…
ایسا مت کرو ۔ کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو،رات میں نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو ؛کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے ۔تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے ،تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے ،اور تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے ۔ (صحیح بخاري: 1975.صحیح مسلم: 1159)
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان سے فرمایا: اگر تم ایسا کروگے تو تمہاری آنکھ دھنس جائے گی اور تمہارا جسم کمزور ہوجائے گا ۔
(إِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ الْعَيْنُ، وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ.صحیح بخاري 1979)
اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ خطرات سے بھرے کھیل میں اگر کسی کو مہارت ہو جس کی وجہ خطرے کا امکان کم اور سلامتی غالب ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے کہ نشانہ سادھنے اور اس سے بچنے کی مشق کرتے ہوئے کوئی کسی پر تیر چلائے اور دوسرا مہارت اور پھرتی کے سبب اس سے بچ جائے تو یہ درست ہے ۔اسی طرح سے سانپ پکڑنے میں کسی کو مہارت ہو تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ۔(وكذا يحل كل لعب خطر لحاذق تغلب سلامته كرمي لرام وصيد لحية ويحل التفرج عليهم حينئذ. الدر المختار 667/9)
لہذا اس طرح سے تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلانا جس میں ہلاکت کا زیادہ امکان ہو جائز نہیں ہے ۔اسی طرح سے گاڑیوں کے ریس میں حصہ لینا درست نہیں ہے ۔نیز کوہ پیمائی کرنا اور پہاڑوں کی چوٹیوں اور بلند عمارتوں پر چڑھنا جس میں پھسل کر گرنے اور جان کی بازی ہار جانے کا غالب امکان ہو تو جائز نہیں ہے ۔
نیز یہ کہ اس طرح کے پر خطر کھیلوں کا کوئی جائز مقصد نہیں ہے نہ تو خود اس کا کوئی فائدہ ہے اور نہ سماج کی کوئی منفعت اس سے وابستہ ہے ، نہ تو کوئی معاشی افادیت ہے اور نہ ملت و قوم کی کوئی ضرورت پوری ہوتی ہے اور نہ کسی مصلحت کا تقاضا ہے ۔بس خود نمائی اور شہرت طلبی کے جذبے کی تسکین مقصود ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے خود کو ہلاکت میں ڈالنا حماقت بھی ہے اور معصیت بھی ۔