نماز خسوف( چاندگرہن)

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

سورج گرہن کی طرح چاند گرہن میں بھی دورکعت نماز سنت موکدہ ہے، حدیث میں ہے کہ سورج ،چاند گہن کا تعلق کسی کی موت اور زندگی سے نہیں ہے ۔ بس جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو.( ان الشمس والقمر لا ینکفسان لموت احدولالحیاتہ فاذارایتم فصلوا وادعواللہ .صحیح بخاری و مسلم۔المشکوٰۃ 130/1))

اس حدیث میں اور اس کے علاوہ دیگر احادیث میں سورج اور چاند دونوں کے گہن میں بلاتفریق نماز کا حکم دیاگیا ہے،لہذا سنت موکدہ ہونے میں دونوں کا حکم یکساں ہے۔

آنحضور ﷺ کا عمل بھی دونوں کے سلسلہ میں یکساں منقول ہے،حدیث میں ہے کہ جب سورج یا چاند گہن ہوتاتو آپ ﷺ نماز میں مشغول ہوجاتے۔ یہاں تک کہ گہن ختم ہوجاتا۔(کان رسول اللہ ﷺ اذا انکسفت الشمس والقمر صلی حتی تنجلی .رواہ الطبرانی باسناد حسن. اعلاء السنن 133/8)

علامہ ظفر احمد عثمانی اس خیال کی کہ نماز خسوف مستحب ہے ، سنت نہیں، پرزور تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

عام طور سے فقہی کتابوں میں نماز خسوف کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ مستحب اور بہتر ہے مگر سنت نہیں۔یہ غلط اور نادرست ہے، اس لئے کہ طبرانی کی مذکورہ حدیث میں سورج اور چاند دونوں کے گہن میں آپ ﷺ سے نماز منقول ہے اور جس نماز پر آنحضرت ﷺ نے مواظبت فرمائی ہو اس کو صرف مستحب یا مستحسن کیسے کہا جاسکتا ہے؟(اعلاء السنن 133/8)

 

جماعت :

 

یہ نماز تنہا تنہا بلا جماعت پڑھی جائے گی۔امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کا یہی مذہب ہے ۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک خسوف کے نماز میں بھی جماعت مسنون ہے کیونکہ حسن بصری کہتے ہیں کہ جب ابن عباس بصرہ کے گورنر تھے اور اس وقت چاند گہن لگا تو انہوں نے ہمیں دورکعت نماز پڑھائی ہررکعت میں دو رکوع کیا اور فرمایا کہ میں نے اسی طرح نماز پڑھائی ہے، جس طرح نبیﷺ پڑھتے تھے۔( فصلی بنا رکعتیں فی کل رکعۃ رکعتین ثم رکب وقال انما صلیت کما رایت النبی ﷺ یصلی۔ رواہ الشافعی فی المسند ۔ فقہ السنۃ 190/1) حدیث ضعیف ہے۔ نیل الاوطار 3/333)

اس کے برعکس امام مالک فرماتے ہیں کہ نہ مجھے معلوم ہے اور نہ میرے شہر (مدینہ) والوں کو کہ کبھی آپ ﷺ نے نماز خسوف جماعت سے پڑھی ہو۔(عمدۃ القاری66/7) تاہم جماعت سے پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ جائز ہے۔ خصوصاً جبکہ لوگ مسجد میں جمع ہوجائیں تو جماعت کرلینا ہی بہتر ہے۔ فقہاء نے اس میں جماعت مسنون نہ ہونے کی جو وجہ بیان کی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے علامہ عینی لکھتے ہیں:

ابو حنیفہ لم ینف الجماعۃ وانما قال الجماعۃ فیہ غیر سنۃ بل ھی جائز ۃ و ذالک لتعذر اجتماع الناس من اطراف البلاد باللیل۔ (معارف السنن 28/5)

امام ابوحنیفہ ؓ نے جماعت کی نفی نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے کہا کہ جماعت جائز ہے سنت نہیں اور یہ اس لئے کہ رات میں شہر کے اطراف سے لوگوں کا جمع ہونا دشوار اور مشکل ہے۔

اس نماز کو بھی مسجد ہی میں پڑھنا بہتر ہے ۔حدیث میں ہے کہ: جب کبھی سورج یا چاند گہن لگے تو جلدی سے مسجد کی طرف لپکو۔ (فــاذا رایتموھــا کذالک فافـــــزعوا الی المساجد۔رواہ احمد ۔نیل الاوطار 333/3 ) علامہ کاسانی کا خیال ہے کہ یہ نماز گھر میں پڑھی جائے گی۔ لیکن علامہ ظفر احمد عثمانی اس سے متفق نہیں. حدیث کے پیش نظر ان کا خیال ہے کہ مسجد ہی میں پڑھنا بہتر ہے۔ ( دیکھئے : اعلاء السنن 138/8)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے