کورٹ میرج:
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
عقد نکاح میں سرپرستوں کی رضامندی اور شمولیت مطلوب شریعت ہے اور ان کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شریعت کے منشا ،شرم و حیا اور معاشرتی تقاضوں کے خلاف اور سخت ناپسندیدہ ہے ۔
ان کی مرضی کے نکاح میں خیر وبرکت ہوتی ہے،رشتہ پائدار اور زندگی خوشگوار ہوتی ہے ۔
اس کے برعکس پسند اور محبت کی شادی وقتی جذبات کے ابال کا نتیجہ ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور جب حقیقت سے سابقہ پڑتا ہے تو پھر پچھتاوے کا دور شروع ہوتا ہے اور علاحدگی کی نوبت آجاتی ہے ۔
اس لئے مہذب طریقہ یہی ہےکہ عقد نکاح میں سرپرستوں پر اعتماد کیا جائے اور ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔
لیکن اگر کوئی مسلمان گواہوں کی موجودگی میں زبانی ایجاب و قبول کے ذریعے کورٹ میں نکاح کرلے تو وہ منعقد ہوجائے گا بشرطیکہ کفاءت کا لحاظ رکھا گیا ہو ۔
اور اگر غیر کفو میں نکاح کیا گیا ہے تو لڑکی کے سرپرست کو اعتراض کا حق حاصل ہوگا اور وہ چاہے تو شرعی پنچایت کے ذریعے اس نکاح کو فسخ کرا سکتا ہے(1) ۔اور امام ابوحنیفہ کی ایک رائے یہ ہے کہ غیر کفو میں کیا گیا نکاح درست نہیں ہوتا ہے ۔بہت سے لوگوں نے اس قول پر بھی فتوا دیا ہے ۔
لیکن بھارت کی عدالتوں میں زبانی ایجاب وقبول نہیں کرایا جاتا ہے اور نہ ہی مسلمان گواہوں کی موجودگی کا اہتمام کیا جاتا ہے . اور بجائے اس کے رجسٹرار کےسامنے مرد و عورت دونوں نکاح کے پیپر پر صرف دستخط کرتے ہیں ۔حالانکہ گواہان کی موجودگی اور ایجاب وقبول کے الفاظ کا سننا(2) اور عاقدین اگر موقع پر موجود ہوں تو زبانی ایجاب و قبول ضروری ہے ۔(3)
(1)”الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض”. (البدائع:2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )
(2)و منها سماع الشاهدين كلامهما.(الهندية:2/2)
(3)ولا بكتابة حاضر فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد (رد المحتار 73/4 مطلب التزوج بارسال كتاب .)