کھیلکود :
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
کھیل کود وغیرہ کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں: لھو اور لعب.
"لعب ” ہر ایسے عمل کو کہا جاتا ہے جس کا کوئی صحیح مقصد نہ ہو، بعض لوگوں نے کہا کہ لعب وہ کام ہے جو محض لذت طلبی کے لیے کیا جائے، اس میں کوئی فائدہ اور حکمت پیش نظر نہ ہو جیسے کہ بچوں کا کام کہ وہ فائدہ اور حکمت کو نہیں جانتے بس لذت اور مزا حاصل کرنے کے لیے اسے انجام دیتے ہیں.
اور لھو ایسی تفریح کو کہتے ہیں جس میں حکمت کے تقاضے کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو ۔دوسرے الفاظ میں بے فائدہ کھیل تماشا کو لہو کہا جاتا ہے۔ انما اللهو لعب لا يعقب نفعا (الموسوعة الفقهيية الكويتية268/35)
کھیل کی شرعی حیثیت:
انسانی فطرت میں کھیل کود اور تفریح کا میلان رکھا گیا ہے گویا کہ کھیل کود فطری جذبات و خواہشات کا ایک حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ چیزیں ہمیشہ سے انسانی سماج میں رائج رہی ہیں.
اور اسلام دین فطرت ہے، وہ زندگی کے ہر مرحلے اور تمام گوشوں میں طبعی تقاضوں کی رعایت کرتا ہے، وہ طبیعت کے تقاضوں کو نہ تو کچلتا ہے اور نہ ان پر بیجا بندشیں لگاتا ہے۔البتہ ان کے استعمال میں بے اعتدالی کو گوارہ نہیں کرتا ہے بلکہ افراط و تفریط سے ہٹ کر ایک متوازن راستہ متعین کرتا ہے، چنانچہ اس مسئلے میں بھی اس نے کچھ شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے بلکہ کچھ کھیلوں کی طرف اس نے آمادہ کیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کی ہے جیسے کہ وہ کھیل جس سے جسمانی یا ذہنی نشوونما ہوتی ہو، طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا ہو اور خوابیدہ صلاحیت بیدار ہوتی ہو ۔توانائی اور چستی پھرتی کا ذریعہ ہو یا اس سے فوجی ٹریننگ اور فنون جنگ میں مہارت اور بصیرت حاصل ہوتی ہو ۔چنانچہ ارشاد باری ہے :
وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُم .
اور (مسلمانو) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، ۔ (سورہ الانفال: 60)
تفسیر:
یہ پوری امت مسلمہ کیلئے ایک ابدی حکم ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت قائم کرنے کے لئے ہر قسم کی دفاعی طاقت جمع کرنے کا اہتمام کرے، قرآن کریم نے طاقت کا عام لفظ استعمال کرکے بتادیا ہے کہ جنگ کی تیاری کسی ایک ہھتیار پر موقوف نہیں ؛ بلکہ جس وقت جس قسم کی دفاعی قوت کار آمد ہو اس وقت اسی طاقت کا حصول مسلمانوں کا فریضہ ہے، لہذا اس میں تمام جدید ترین ہھتیار اور آلات بھی داخل ہیں اور وہ تمام اسباب ووسائل بھی جو مسلمانوں کی اجتماعی معاشی اور دفاعی ترقی کے لئے ضروری ہوں، افسوس ہے کہ اس فریضے سے غافل ہو کر آج مسلمان دوسری قوموں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں اور ان سے مرعوب ہیں، اللہ تعالیٰ ہم کو اس صورت حال سے نجات عطا فرمائے۔ امین۔ (آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور جب طالوت کو بنی اسرائیل کی بادشاہت عطا کی گئی تو ان کی خوبی یہ بیان کی گئی کہ ان میں علم کے ساتھ جسمانی طاقت بھی ہے:
وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ قَالُوۡۤا اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہُ الۡمُلۡکُ عَلَیۡنَا وَ نَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡکِ مِنۡہُ وَ لَمۡ یُؤۡتَ سَعَۃً مِّنَ الۡمَالِ ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰٮہُ عَلَیۡکُمۡ وَ زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ ؕ وَ اللّٰہُ یُؤۡتِیۡ مُلۡکَہٗ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ۔
اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ : اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ کہنے لگے : بھلا اس کو ہم پر بادشاہت کرنے کا حق کہاں سے آگیا ؟ ہم اس کے مقابلے میں بادشاہت کے زیادہ مستحق ہیں، اور اس کو تو مالی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا : اللہ نے ان کو تم پر فضیلت دے کر چنا ہے اور انہیں علم اور جسم میں ( تم سے) زیادہ وسعت عطا کی ہے، اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔ (سورہ البقرۃ : 247)
اور حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجِزْ،
اللہ کی نگاہ میں طاقتور مومن، کمزور مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے اور دونوں میں بھلائی ہے، ایسی چیز کے لیے کوشش کرو جو تمہارے لیے نفع رساں ہو اور اللہ سے مدد چاہو اور کمزوری کا اظہار مت کرو۔ (صحیح مسلم:2664)
نیز عید کے موقع پر حبشیوں کے نیزہ بازی کے کھیل کو آنحضرت ﷺ دیکھا اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی حضرت عائشه سے روايت ہے :
وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا قَالَ : ” تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ ؟ ” فَقُلْتُ : نَعَمْ. فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ – خَدِّي عَلَى خَدِّهِ – وَهُوَ يَقُولُ : ” دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ ". حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ قَالَ : ” حَسْبُكِ ؟ ” قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ :” فَاذْهَبِي ".
عید کے موقع پر حبشہ کے لوگ ڈھال اور نیزے سے کھیلا کرتے تھے، یا تو میں نے خواہش کی یا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا:ہاں۔ آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ کے رخسار کے پاس تھا۔ اللہ کے رسول فرما رہے تھے: واہ واہ اے حبشہ کے لوگو! یہاں تک کہ جب میں اکتا گئی تو آپ نے فرمایا :بس، میں نے کہا:ہاں ۔ فرمایا: تو جاؤ.(بخاري:950)
امام احمد نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ : ” لِتَعْلَمَ يَهُودُ أَنَّ فِي دِينِنَا فُسْحَةً ؛ إِنِّي أُرْسِلْتُ بِحَنِيفِيَّةٍ سَمْحَةٍ ".
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا:تاکہ یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں وسعت ہے۔مجھے آسان اور سیدھے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے ۔(مسند احمد: 25962)
اس کے برعکس بعض احادیث سے بظاہر چند چیزوں کے علاوہ کسی اور کھیل کود کی ممانعت معلوم ہوتی ہے چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كلُّ شيءٍ ليس مِن ذِكْرِ اللهِ، فهو لَعِبٌ، إلّا أربعةً: مُلاعَبةَ الرَّجُلِ امرأتَهُ، وتأديبَ الرَّجُلِ فرَسَهُ، ومَشْيَ الرَّجُلِ بين الغرَضَيْنِ، وتعليمَ الرَّجُلِ السباحةَ.
جس چیز کا تعلق اللہ کے ذکر سے نہ ہو وہ کھیل تماشا ہے سوائے چار چیزوں کے:اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا ،اپنے گھوڑے کو سدھانا،دو نشانوں کے درمیان چلنا اور تیراکی سیکھنا۔(السنن الکبری للنسائی: 8891)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے :
كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ، إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ۔(1)
مسلمان کا ہر لھو بیکار اور ناقابل اجر ہے الا یہ کہ تیر اندازی کرے اور گھوڑے کو سدھائے اور اپنے اہل کے ساتھ کھیلے۔کیونکہ یہ سب چیزیں باعث ثواب ہیں(ترمذی :1637. ابن ماجه:2811)
لیکن ظاہر ہے کہ مذکور حدیث میں لہو لعب سے مراد وہ کھیل ہے جس میں نہ تو دنیا کا کوئی فائدہ ہو اور نہ آخرت کا ، لہذا وہ کھیل جس سے کوئی صحیح مقصد وابستہ ہو وہ جائز ہے ،خود حدیث سے ان تین کے علاوہ کھیل بھی ثابت ہے جس کی تفصیل آئے گی چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں:
وفي معناها كل ما يعين على الحق من العلم والعمل إذا كان من الأمور المباحة كالمسابقة بالرجل والخيل والإبل والتمشية للتنزه على قصد تقوية البدن وتطرية الدماغ .
اس کے مفہوم میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جو حقیقی علم و عمل کے لئے معاون ہوں جب کہ ان کا تعلق جائز امور سے ہو جیسے کہ دوڑنے اور اونٹ اور گھوڑے کو دوڑانے میں مقابلہ کرنا اور جسم کو تندرست وتوانا اور دماغ کو تروتازہ رکھنے کے مقصد سے پیدل چلنا۔(تحفة الاحوذی حدیث نمبر:1937)
امام ابو داؤد نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں :
لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ.
اور ابن معن نے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ یعنی مستحب لھو میں صرف تین چیزیں شامل ہیں ۔۔۔( يعني ليس من اللهو المستحب ۔۔۔عون المعبود. حدیث نمبر:1513)
یا ایسے کھیل مراد ہوں جو اللہ کی یاد سے غافل کر دیں چنانچہ امام بخاری نے عنوان قائم کیا ہے "باب كل لهو باطل اذا شغله عن طاعة الله” (ہر لھو باطل ہے جب وہ اللہ کی اطاعت سے غافل کردے )
اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح میں لکھا ہے کہ کوئی بھی چیز اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ کا سبب ہو تو وہ ممنوع ہے خواہ شریعت میں اس کی اجازت ہو یا ممانعت بلکہ نفل نماز ،ذکر ،تلاوت اور قرآن کے معانی میں غور و تدبر کی وجہ سے جان بوجھ کر نماز قضا کردے تو وہ بھی اس ضابطے میں داخل ہے ۔
اور جب پسندیدہ اور مطلوب چیزوں کا یہ حال ہے تو اس سے کمتر کا کیا حال ہوگا ؟
امام بخاری نے اس کے بعد درج ذیل آیت ذکر کی ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بغیر علم۔
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بےسمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں.(سورہ لقمٰن : 6)
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کے ذکر کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر لھو لعب کے سامان کو اللہ کے راستے سے بھٹکانے کے ارادہ سے نہ خریدے تو وہ لائق مذمت نہیں ہے بشرطیکہ بذات خود وہ ممنوع نہ ہو۔(2)
اور مفتی تقی عثمانی صاحب مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بےپرواہ کرے، ناجائز ہے کھیل کود اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔
( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
حاصل یہ ہے کہ اگر کھیل کود کا مقصد ذہنی و جسمانی ورزش ،تفریح طبع، ہنسی مذاق، دنیاوی جھمیلوں سے دوری اور الجھنوں سے چھٹکارا حاصل کرنا اور طبیعت میں نشاط پیدا کرنا ہو تو بھی اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا ہے. مفتی محمد تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ اس سلسے میں ضابطہ یہ ہے کہ بے فائدہ کھیل تماشا جس کا دنیا یا آخرت میں کوئی فائدہ اور صحیح غرض نہ ہو تو وہ حرام یا مکروہ تحریمی ہے اور اگر کسی کھیل سے کوئی صحیح غرض اور دینی یا دنیاوی مصلحت وابستہ ہو لیکن کتاب و سنت میں اس کی ممانعت مذکور ہے تو وہ بھی حرام یا مکروہ تحریمی ہے ۔اور اگر اس کے بارے میں شریعت نے منع نہیں کیا ہے اور اس میں لوگوں کا فائدہ اور مصلحت ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں:
1-تجربہ سے ثابت ہے کہ اس کا نقصان اور اس کا فساد اس کے نفع سے بڑھا ہوا ہے اور جو کوئی اس میں مشغول ہوتا ہے وہ اللہ کے ذکر ، نماز اور مسجدوں سے غافل ہوجاتا ہے،ایسا کھیل بھی ممانعت میں داخل ہے کیونکہ علت میں یہ بھی شریک ہے لہذا حرام یا مکروہ ہے ۔
2-اس میں مذکورہ خرابیاں نہیں ہیں لیکن محض کھیل تماشا کی حیثیت سے اس میں حصہ لیا جاتا ہے تو وہ بھی مکروہ ہے ۔
اور اگر اس میں موجود منفعت ومصلحت کے حصول کی نیت سے کھیلتا ہے تو وہ جائز ہے بلکہ کبھی استحباب یا اس سے بلند درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔اس ضابطے کے مطابق جن کھیلوں کا مقصد ذہنی یا جسمانی ورزش ہو تو وہ جائز ہیں بشرطیکہ اس میں کوئی دوسری معصیت نہ ہو اور اس میں مشغول ہوکر دینی اور دنیاوی واجبات اور ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو ۔(3)
اصول و ضوابط:
شریعت نے کھیل کود کے سلسلے میں چند اصول و ضابطے متعین کئے ہیں جن کی روشنی میں کسی بھی کھیل کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو سمجھا جا سکتا ہے
1-کسی بھی کام میں سب سے اہم چیز نیت ہے لہذا نیک نیت اور اچھے مقصد سے جائز کھیل بھی باعث اجر و ثواب ہے اور بری نیت کے ساتھ مستحب کھیل بھی باعث عذاب ہے امام نووی کہتے ہیں کہ مباح عمل سے بھی اللہ کی رضا مقصود ہوتو وہ اطاعت اور عبادت میں شامل ہے نبی کریم ﷺ نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(4)
وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ۔
اللہ کی خوشنودی کے لئے تم جو بھی درج کرتے ہو اس کا تمہیں اجر ملے گا یہاں تک کہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے میں بھی ثواب ہے۔(صحیح مسلم :1628)
۔ اور علامہ شامی لکھتے ہیں:
جہاد کے لئے حصول قدرت کے مقصد سے حدیث میں کشتی لڑنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب کہ محض کھیل تماشا کی حیثیت سے کشتی نہ لڑے ؛کیونکہ یہ مکروہ ہے اور ظاہر ہے کہ اسی طرح کی تفصیل گھوڑے کو سدھانے اور تیر اندازی میں بھی ہے ۔
(جاء الاثر في رخصة المصارعة لتحصيل القدرة القدره على المقاتلة دون التلهي فانه مكروه والظاهر انه يقال مثل ذلك في تاديب الفرس والمناضلة بالقوس ۔رد المحتار651/9)
اور مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں:
فقہاء نے یہ تصریح بھی کر دی ہے کہ یہ جائز کھیل بھی اسی وقت جائز ہیں جبکہ ان کا مقصد اور ان کی غرض صحیح ہو ورنہ اگر مقصد محض کھیل برائے کھیل ہو تو یہ مباح کھیل بھی جائز نہیں چنانچہ کوئی شخص کشتی ،تیراکی، دوڑ، نشانہ بازی محض لہو لعب کی نیت سے کرے تو یہ بھی مکروہ ہوں گے۔ (احکام القرآن 192/3)
2-کھیل کود سے دنیا و اخرت کا کوئی فائدہ وابستہ ہو اور اسی فائدہ کے پیش نظر اسے اختیار کیا جائے۔ لہذا جسمانی ورزش اور صحت کے لیے مفید اور قوت و طاقت میں اضافہ کے لیے کھیل جائز ہے ۔اور بے فائدہ کھیل تماشہ کی اجازت نہیں ہے اسی طرح سے فائدہ مند کھیل بھی محض کھیل تماشہ کے طور پر ہو تو وہ ناجائز ہے علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:
ہر لھو مکروہ ہے کیونکہ اگر اس میں جوا کا عنصر شامل ہو تو وہ قرآنی صراحت کے مطابق حرام ہے اور اگر جوا نہ ہو تو بے کار اور بے فائدہ کھیل ہے۔
(يكره كل لهو لانه ان قام بها فلما يصير حرام بالنص وان لم يقامر فهو عبث ولهو. الهدايه 459/4)
3-ایسا کھیل نہ اختیار کیا جائے جس میں جان جانے کا خطرہ ہے اور نہ درندگی اور بے رحمی کا کھیل کھیلا جائے نیز اس کی وجہ سے کسی انسان یا حیوان کو کوئی نقصان نہ پہنچے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(سورہ البقرۃ :195)
اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لَا ضَرَرَ وَلَا إِضْرَارَ.
نہ تو ابتداء کسی کو نقصان پہوچاؤ اور نہ بدلے میں ۔(مسند احمد:2865)
لہذا فری سٹائل کشتی اور باکسنگ وغیرہ جائز نہیں اور نہ ہی جانوروں کو باہم لڑانا درست ہے۔
4-اس میں مشغول ہو کر نماز اور دوسرے واجبات اور ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو اور نہ ہی جھوٹی قسمیں کھائے۔علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ تمام علماء کے نزدیک ایسا کھیل حرام ہے جو جو ظاہری وباطنی واجبات سے غافل کرے۔ جیسے کہ نماز یا اس کے علاوہ دوسرے واجبات مثلاً اہل خانہ کی ضروریات، اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے، والدین کی اطاعت اورحسن سلوک یا حکومت و اقتدار کی ذمہ داریوں سے غافل کرے، یا اس کھیل سے کوئی حرام چیز متعلق ہو، ایسے تمام کھیل متفقہ طور پر حرام ہیں۔ (الذرائع: 1/85)
5- اس میں جوا کا عنصر شامل نہ ہو۔
قرآن حکیم میں جوا ، شراب اور بت پرستی وغیرہ کو ایک ساتھ ذکر کر کے حرام قرار دیا گیا ہے.فرمان باري ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۔اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ ۔
اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیر یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے ؟ (سورہ المآئدۃ : 90-91)
اور حدیث میں ہے :
من قال لصاحبہ تعال اقامرک فلیتصدق۔
اگرکوئی کسی سے صرف یہ کہہ دے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے چاہیے کہ کچھ صدقہ کرے۔ (صحیح بخاری 6301 ۔صحیح مسلم :1647)
یعنی صرف جوا کھیلنا ہی حرام نہیں بلکہ جوئے کی طرف بلانا اور جوا کھیلنے کا ارادہ ظاہر کرنا بھی گناہ ہے اور اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ وہ کچھ صدقہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہوگا۔ نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’والدین کا نافرمان، جواری اور ہمیشہ شراب پینے والے کو جنت نصیب نہ ہوگی۔‘‘(مشکاۃ/318)
کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر خسارے کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ محض چند گھڑی کی عشرت اور گناہ بے لذت کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اس کے ہاتھ سے چلی جائے۔
6-مردوں کے لیے زنانہ کھیل اور عورتوں کے لیے مردانہ کھیل ناجائز ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے کہا گیا کہ ایک عورت مردوں جیسی چپل پہنتی ہے تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد بننے والی عورتوں پر لعنت کی ہے ۔
(قِيلَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : إِنَّ امْرَأَةً تَلْبَسُ النَّعْلَ. فَقَالَتْ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَةَ مِنَ النِّسَاءِ.(ابودؤد: 4099)
اور حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت کی ہے
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ. ابوداؤد 4097)
7- کھیل کے دوران ستر پوشی کا لحاظ رکھا جائے. یعنی جسم کے اس حصے کو چھپانے کا اہتمام کیا جائے جنھیں چھپانا ضروری ہے مثلاً مرد کے لئے ناف سے گھٹنے تک کا حصہ چھپانا واجب ہے اور عورت کے لئے غیر محرم مردوں کے سامنے پورے جسم کا پردہ ضروری ہے البتہ عورتوں کے سامنے اس کا ستر بھی وہی ہے جو مردوں کا ہے یعنی ناف سے لے کر گھٹنے تک .(الاختیار 110/4)
نیز لباس اس قدر باریک اور چست نہ ہو کہ اس سے جسم کے اعضا نمایاں ہوں۔ اسی طرح غیر مسلموں کا مخصوص لباس پہننا بھی درست نہیں ہے یعنی اس لباس کو دیکھ کر معلوم ہو کہ اس کا تعلق فلاں قوم سے ہے ۔ مردوں کے لیے یہ بھی واجب ہے کہ ان کا لباس ٹخنوں سے اوپر ہو۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو زعفرانی رنگ کا کپڑا پہنے دیکھ کر فرمایا : یہ کفار کا لباس ہے اس لیے اسے مت پہنو۔ (صحیح مسلم:2077)
8- ان تمام کھیلوں سے اجتناب کیا جائے جس میں کوشش اور محنت کی جگہ قسمت اور چانس پر ہار جیت ہوتی ہو جیسے کہ چوسر اور لوڈو ۔اس طرح کے کھیل بہر صورت ناجائز ہیں خواہ ہار جیت پر انعام مقرر ہو یا نہ ہو۔
9- کھیل کود کے مقابلوں میں ہار جیت پر دشمنی اور گالم گلوچ کی نوبت نہ آئے ۔اور دوستی و دشمنی کا معیار صرف رضائے الٰہی ہو ۔
10- اگر کوئی کھیل غیر مسلموں کے ساتھ خاص ہو تو اس سے احتراز کیا جائے اسی طرح سے کھیل کا ساز و سامان بھی کسی قوم کے ساتھ مخصوص ہو اور اس کا متبادل موجود ہوتو اس سے احتیاط کیا جائے
چنانچہ حدیث میں ہے :
فمَرَّ برجُلٍ يحمِلُ قَوسًا فارسيًّا، فقال: ألقِها؛ فإنَّها ملعونةٌ ملعونٌ من يحمِلُها، عليكم بالقَنا والقِسيِّ العَرَبيَّةِ؛ فإنَّ بها يُعِزُّ اللهُ دينَكُم، ويَفتَحُ لَكُمُ البِلادَ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ادمی کے پاس سے گزرے جو ایرانی کمال لیے ہوئے تھا۔ آپ نے فرمایا اسے پھینک دو یہ لعنت زدہ ہے اور وہ بھی لعنت زدہ ہے جو اس کو اٹھائے ۔ تم نیزوں کو اور عربی کمان کو لازم پکڑو کیونکہ اسی کے ذریعے اللہ تبارک و تعالی تمہارے دین کو سر بلند کرے اور تمہارے لیے شہروں کو فتح کرے گا۔
(فیض القدیر 346/4. فيه بكر بن سهل الدّمياطي قال الذّهبي: مقارب الحديث وقال النّسائي: ضعيف وبقية رجاله رجال الصّحيح)
اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس روایت سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت شدیدہ غیر مسلم قوموں کے آلات ورزش کا استعمال بھی مکروہ ہے اگرچہ حرمت کی کوئی دلیل نہیں (امداد الفتاوی 457/4)
11- ایک مومن کے لئے دنیا امتحان کی جگہ ہے جہاں وہ عبادت و طاعت کے لئے بھیجا گیا ہے اور چونکہ کھیل کود بھی ایک فطری میلان ہے اس لئے اس بالکل منع نہیں کیا گیا ہے ۔لیکن یہ زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ بربناء ضرورت اس کی اجازت دی گئی ہے اس لئے اسے ضرورت کے بقدر ہی رہنا چاہئے ۔
اور قرآن میں اسراف سے منع کیا گیا ہے یہاں تک کہ عبادت میں بھی اسراف ناپسندیدہ ہے تو پھر کھیل کود میں اس کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟ کہنے والے کی یہ بات کس قدر چشم کشا اور بصیرت افروز ہے :
ما رأيت إسرافا إلا وبجانبه حق مضيع”
مجھے جہاں کہیں بھی اسراف نظر آیا تو دیکھا کہ اس کے پہلو میں ایک حق ہے جسے ضائع کیا جارہا ہے ۔
(1) كل ما يلهو به الرجل المسلم )أي يشتغل ويلعب به۔( باطل )لا ثواب له۔( إلا رميه بقوس )احتراف عن رميه بالحجر والخشب۔
( وتأديبه فرسه )أي تعليمه إياه بالركض والجولان على نية الغزو۔( وملاعبته أهله ، فإنهن من الحق )أي ليس من اللهو الباطل فيترتب عليه الثواب الكامل .( تحفۃ الاحوذی: حدیث نمبر:1637)
(2) بَاب كُلُّ لَهْوٍ بَاطِلٌ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ تَعَالَ أُقَامِرْكَ وَقَوْلُهُ تَعَالَى ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾
قَوْلُهُ (بَاب كُلُّ لَهْوٍ بَاطِلٌ إِذَا شَغَلَهُ) أَيْ شَغَلَ اللَّاهِيَ بِهِ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ، أَيْ كَمَنِ الْتَهَى بِشَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ مُطْلَقًا، سَوَاءٌ كَانَ مَأْذُونًا فِي فِعْلِهِ أَوْ مَنْهِيًّا عَنْهُ، كَمَنِ اشْتَغَلَ بِصَلَاةِ نَافِلَةٍ أَوْ بِتِلَاوَةٍ أَوْ ذِكْرٍ أَوْ تَفَكُّرٍ فِي مَعَانِي الْقُرْآنِ مَثَلًا حَتَّى خَرَجَ وَقْتُ الصَّلَاةِ الْمَفْرُوضَةِ عَمْدًا، فَإِنَّهُ يَدْخُلُ تَحْتَ هَذَا الضَّابِطِ، وَإِذَا كَانَ هَذَا فِي الْأَشْيَاءِ الْمُرَغَّبِ فِيهَا الْمَطْلُوبِ فِعْلُهَا، فَكَيْفَ حَالُ مَا دُونَهَا ۔۔۔۔۔قَوْلُهُ: وَقَوْلُهُ – تَعَالَى -: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ الْآيَةَ كَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ، وَالْأَكْثَرُ وَفِي رِوَايَةِ الْأَصِيلِيِّ وَكَرِيمَةَ: ﴿لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾ الْآيَةَ وَذَكَرَ ابْنُ بَطَّالٍ أَنَّ الْبُخَارِيَّ اسْتَنْبَطَ تَقْيِيدَ اللَّهْوِ فِي التَّرْجَمَةِ مِنْ مَفْهُومِ قَوْلِهِ – تَعَالَى – ﴿لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾ فَإِنَّ مَفْهُومَهُ أَنَّهُ إِذَا اشْتَرَاهُ لَا لِيُضِلَّ لَا يَكُونُ مَذْمُومًا، وَكَذَا مَفْهُومُ التَّرْجَمَةِ أَنَّهُ إِذَا لَمْ يَشْغَلْهُ اللَّهْوُ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ لَا يَكُونُ بَاطِلًا. لَكِنْ عُمُومُ هَذَا الْمَفْهُومِ يُخَصُّ بِالْمَنْطُوقِ، فَكُلُّ شَيْءٍ نُصَّ عَلَى تَحْرِيمِهِ مِمَّا يُلْهِي يَكُونُ بَاطِلًا، سَوَاءٌ شَغَلَ أَوْ لَمْ يَشْغَلْ…(فتح91/11)
(3)فالضابط في هذا : أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه.”(تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا،ج:4،ص:435،ط:دارالعلوم کراچی)
(4) وفيه : أن المباح إذا قصد به وجه الله تعالى صار طاعة ، ويثاب عليه ، وقد نبه صلى الله عليه وسلم على هذا بقوله صلى الله عليه وسلم : ” حتى اللقمة تجعلها في في امرأتك ” ؛ لأن زوجة الإنسان هي من أخص حظوظه الدنيوية وشهواته وملاذه المباحة ، وإذا وضع اللقمة في فيها فإنما يكون ذلك في العادة عند الملاعبة والملاطفة والتلذذ بالمباح ، فهذه الحالة أبعد الأشياء عن الطاعة وأمور الآخرة ، ومع هذا فأخبر صلى الله عليه وسلم أنه إذا قصد بهذه اللقمة وجه الله تعالى ، حصل له الأجر بذلك ، فغير هذه الحالة أولى بحصول الأجر إذا أراد وجه الله تعالى ، ويتضمن ذلك أن الإنسان إذا فعل شيئا أصله على الإباحة ، وقصد به وجه الله تعالى يثاب عليه ، وذلك كالأكل بنية التقوي على طاعة الله تعالى ، والنوم للاستراحة ؛ ليقوم إلى العبادة نشيطا ، والاستمتاع بزوجته وجاريته ؛ ليكف نفسه وبصره ونحوهما عن الحرام ؛ وليقضي حقها ؛ ليحصل ولدا صالحا ، وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم : ” وفي بضع أحدكم صدقة ” والله أعلم . ( حاشیہ صحیح مسلم :1628)
2- انعامی مقابلہ:
جائز اور پسندیدہ کھیلوں مں ہار جیت کا مقابلہ کرنے اور انعام دینے کی بھی گنجائش ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کروایا اور جیتنے والے کو انعام سے نوازا۔(نیل الاوطار 79/8) خود آپ ﷺ نے رکانہ کے ساتھ کشتی لڑی۔(حوالہ سابق 92/8) اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑمیں مقابلہ کیا۔(ابوداؤد 348/1کتاب الجہاد)، ان احادیث کے پیش نظر فقہاء کرام متفق ہیں کہ تمام مفید کھیلوں میں بلامعاوضہ مقابلہ جائز
ہے ۔(رد المحتار 258/5)، لیکن عوض کے ساتھ مقابلہ صرف تین چیزوں میں جائز ہے : گھوڑ دوڑ ، تیراندازی اور اونٹ کی دوڑ۔ کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
لا سبق الا فی نصل أو خف أو حافر۔(ابوداؤد 348/1، نسائی 124/2)
انعامی مقابلہ صرف تیر اندازی، گھوڑ دوڑ اور اونٹوں کی دوڑ میں ہے۔
بعض حنفی فقہاء نے اس میں دوڑ کے مقابلے کو بھی شامل کرلیا ہے اور علامہ حصکفی نے خچر اور گدھے کا اضافہ کیا ہے کہ حدیث میں مذکور لفظ "حافر "(کھر والا جانور) ان دونوں پر بھی صادق آتا ہے ۔(رد المحتار 258/5)
بعض فقہاء کی رائے میں ہر وہ کھیل جو جہاد کے لیے معین و مددگار ہو اس میں انعام مقرر کرنا یا ایسی بازی لگانا جس میں جوا شامل نہ ہو جائز ہے۔(بغیۃ المشتاق /89)، دلائل کی روشنی میں یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ، اس لیے کہ ہر زمانے کے تقاضے جدا جدا ہیں۔ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں عام طور سے یہی تین چیزیں جہاد میں کام آتی تھیں۔ اس لیے آپ نے ان کی اہمیت بتلانے کے لیے بطور خاص ان کا تذکرہ کیا جیساکہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:
الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی۔(مسلم 142/2، ترمذی 139/2، ابوداؤد کتاب الجہاد 340/1)
سنو! قوت توصرف تیراندازی ہے.سنو ! قوت توصرف تیراندازی ہے۔سنو! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔
اس حدیث میں قوت صرف تیر اندازی کو بتلایا گیا ہے لیکن مقصود قوت و طاقت کو تیر اندازی میں محصور کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتلانا ہے کہ یہ قوت کا ایک عظیم ذریعہ ہے ، اس سے غفلت تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح مذکورہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ یہ تین چیزیں جہاد میں کلیدی رول ادا کرتی ہیں، لہٰذا تم اس پر خصوصی توجہ دو یہاں تک کہ اس جذبہ کو بیدار کرنے کے لیے انعام بھی مقرر کیاجاسکتا ہے ۔
نیز حدیث میں پیدل دوڑنے پر انعامی مقابلہ کا تذکرہ نہیں ہے اس کے باوجود جہاد کے لئے معاون ہونے کی وجہ سے اس میں بھی انعامی مقابلے کو جائز کہا گیا ہے ۔لانہ من اسباب الجہاد فکان مندوبا۔(الدر المختار مع الرد 664/9۔ط زکریا دیوبند)
اسی طرح سے فقہاء نے کشتی اور فقہی اور علمی مقابلے میں انعام کو جائز قرار دیا ہے چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:
وانما جاز لان فيه حثا على الجهاد و تعلم العلم فان قيام الدين بالجهاد والعلم فجاز فيما يرجع اليهما لا غير۔ (رد المحتار 666/9)
انعامی مقابلہ کی شرطیں:
انعامی مقابلہ کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں جوا کا عنصر شامل نہ ہو، اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
1- کوئی تیسرا شخص جو اس مقابلہ میں شریک نہ ہو وہ اپنی طرف سے انعام دے۔
2-معاوضہ کی شرط یکطرفہ ہو مثلاً شکیل ،انیس سے کہے کہ آؤ! دوڑ میں مقابلہ کریں، اگر تم جیت جاؤگے تو میں تمہیں دس روپیہ ادا کروں گا، اگر میں جیت گیا تو تمہارے ذمہ کچھ نہیں۔
3-معاوضہ دو طرفہ ہو مگر فریقین کسی تیسرے شخص کو اپنے ساتھ شریک کرلیں اور یہ شرط ٹھہرے کہ فریقین میں سے جو آگے بڑھ جائے گا دوسرا فریق اسے مثلاً ایک ہزار روپیہ اداکرے گا اور اگریہ تیسرا شخص جیت گیا تو کسی کے ذمہ کچھ نہیں یا یہ کہ تیسرا آدمی جیت جائے تو فریقین مل کر اس کو دو ہزار دیں گے اور ہار جانے کی صورت میں اسے ان دونوں کو کچھ دینا نہ ہو لیکن فریقین میں سے جو آگے بڑھے گا ہارنے والے کے ذمہ اس کو ایک ہزار دینا ضروری ہے۔ اصطلاح میں اس تیسرے شخص کو ’’محلل‘‘ کہتے ہیں ، اس صورت کے جواز کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس تیسرے شخص کا گھوڑا۔ اگر گھوڑوں کی ریس ہو رہی ہو-طاقت و قوت میں ان دونوں کے گھوڑوں کے برابر ہو، اگریہ تیسرا گھوڑا کمزور یا بہت تیز و طرار ہوکہ پیچھے رہ جانا یا جیت جانا یقینی ہو تو اس وقت قمار پیدا ہوجانے کی وجہ سے یہ صورت جائز نہ ہوگی(دیکھئے درمختار مع الرد 285/5، رشیدیہ پاکستان ، مجمع الانھر 550/2) اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا:
من أدخل فرسا بین فرسین وھو لا یومن ان
یسبق فلیس بقمار وان ادخل فرسا بین فرسین وقد امن ان یسبق فھو قمار(ابوداؤد 348/1، ابن ماجہ /206، مسند احمد 505/2 عن ابی ہریرۃ)
دو گھوڑوں کے مقابلہ میں اگر تیسرے گھوڑ ے کو بھی شامل کرلیاجائے جس کے آگے بڑھ جانے کا امکان ہو تو یہ قمار نہیں ہے ، اور اگر اس کا ہار جانا یقینی ہوتو یہ قمار ہے۔
یہ تمام شرطیں معاوضہ سے متعلق تھیں، مقابلہ کے جائز ہونے کے لیے ان کے علاوہ بھی پانچ چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
1- معاوضہ کی نوعیت معلوم ہو کہ روپیہ ہے یا کوئی سامان۔
2- انعام یا بازی پر لگائی جانے والی رقم یا سامان کی مقدار کا علم ہو۔
3- مسافت یا مدت متعین ہو کہ یہاں سے وہاں تک یا اتنے منٹ تک دوڑنا ہے۔
4- سواری متعین ہو مثلاً کس گھوڑے کو مقابلہ کے لیے استعمال کیاجائے گا۔
5- دونوں میں سے ہر ایک کے آگے بڑھ جانے اور جیت جانے کا امکان ہو، اگر کوئی سواری بالکل مریل اور کمزور ہو کہ ہار جانا یقینی ہو تو مقابلہ درست نہیں۔(دیکھئے نیل الاوطار 78/8، شرح منح الجلیل 770/1، حواشی تحفۃ المحتاج39/9)
6- حنفیہ کے نزدیک یہ ایک جائز معاملہ ہے ۔اور عقد لازم نہیں ہے لہذا ہر فریق کو یک طرفہ طور پر اختیار ہے کہ وہ اس مقابلے سے دست بردار ہوجائے ۔یہاں تک کہ جیتنے کے بعد بھی انعام دینا قانونی طور پر ضروری نہیں ہے یعنی قاضی اسے اس کی ادائیگی پر مجبور نہیں کرسکتا ہے.البتہ اخلاقی طور پر وعدہ خلافی درست نہیں ہے۔( حتى لو امتنع المغلوب من الدفع لا يجبره القاضي ولا يقضي عليه به۔(رد المحتار 285/5)
7- ایک ہی مقابلہ میں متعدد لوگوں کے لیے انعام مقرر کیاجاسکتاہے مثلاً اول، دوم ، سوم وغیرہ نیز تمام شرکاء کے لیے بھی کچھ نہ کچھ انعام مقرر کیاجاسکتاہے ۔مگر درجہ بندی کے اعتبار سے انعام میں بھی تفاوت ضروری ہے ، ورنہ مقابلہ کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔
8-اگر متعدد لوگوں کی ایک ہی پوزیشن ہو مثلاً پچاس شرکاء میں سے دس اول آجائیں تو اس وقت اول درجہ کی رقم ان میں برابر تقسیم کردی جائے لیکن اگر تمام شرکاء اول آجائیں تو پھر کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔
9- دو جماعتوں کے درمیان مقابلہ کا وہی حکم ہے جو دو افراد سے متعلق ہے، علاوہ ازیں درج ذیل شرائط کا لحاظ بھی ضروری ہے۔
الف-دونوں طرف شرکاء کی تعداد برابر ہو۔
ب- انتخاب میں قوی اور ضعیف کو ملحوظ رکھاجائے ، ایسا نہ ہو کہ ایک طرف ماہر اور تنو مند جمع ہوجائیں اور دوسری طرف کمزور اور بے کار قسم کے ، انتخاب کے لیے قرعہ اندازی درست نہیں؛ کیونکہ اس میں امکان ہے کہ ایک طرف اچھے لوگ جمع ہوجائیں اور دوسری طرف بالکل بودے قسم کے لوگ۔
ج-ایک جماعت کے تمام شرکاء کے درمیان انعام کو برابر تقسیم کیاجائے۔
10- انفرادی مقابلہ میں یہ شرط لگانا کہ جیتنے والا انعام کو اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے گا لغو اور فاسد ہے ، لیکن اس کی وجہ سے معاملہ پرکوئی اثر نہیں پڑے گا، معاملہ برقرار رہے گا، البتہ جیتنے والے کی مرضی ہے ، چاہے اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے یا نہ کرے۔
11- مقابلہ کے وقت ایک دوسرے کی سواری کو دھکا دینا، اس کو چھیڑنا درست نہیں۔
12- دائیں بائیں کھڑا ہونے میں فریقین کے درمیان اختلاف ہوتو قرعہ کے ذریعہ اس کی تعیین کی جائے۔(شرح مہذب 90/15-145)
13- قبلہ کی طرف نشانہ بازی مکروہ ہے ، اس لیے قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت
میں تختۂ مشق کو نصب کرنا چاہیے۔(رد المحتار 286/5)
3- ٹورنامنٹ:
ٹورنامنٹ میں عام طور پر انٹری فیس کے نام سے ایک متعین رقم ہر ٹیم سے لی جاتی ہے اور اس کے بغیر کوئی ٹیم مقابلے میں شریک نہیں ہوسکتی ہے اور پھر جیتنے والی ٹیم اور اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کو انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔
ٹورنامنٹ کی موجودہ شکل جوا اور قمار کے دائرے میں داخل ہے اس لئے ناجائز ہے کیونکہ ہر ایک فریق ایک معمولی رقم اس امید پر داؤ پر لگاتا ہے کہ اگر جیت گیا تو ایک بڑی رقم ہاتھ آئیگی اور اگر ہار گیا تو معمولی رقم ضائع ہوگی اور اسی کا نام جوا اور قمار ہے ۔
البتہ مقابلہ میں حصہ لینے والی کسی ایک ٹیم سے فیس نہ لی جائے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ وہ ٹیم دوسری ٹیموں کے برابر ہو اور اس کے جیتنے کی امید ہو ،ایسا نہ ہو کہ بالکل کمزور ٹیم کو فیس سے مستثنی رکھا جائے جس کا ہارنا تقریباً یقینی ہے ۔
اسی طرح سے اگر ہر ٹیم سے میچ پر آنے والے اخراجات کے بقدر فیس لی جائے اور انعام میں اس رقم کو شامل نہ رکھا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔
اور اس صورت میں اگر فیس کی جمع کردہ رقم خرچ سے زیادہ ہو تو بچی ہوئی رقم کو واپس کرنا ضروری ہے ۔اور ٹورنامنٹ کرانے والی کمیٹی کو اسے استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔
ان شرطوں کے ساتھ انعامی مقابلہ صرف انہیں کھیلوں میں جائز ہوگا جو علم و جہاد اور دین کے دفاع میں معاون ہوں۔حدیث گزر چکی ہے کہ انعامی مقابلہ صرف تین چیزوں میں جائز ہے تیر اندازی اور اونٹ یا گھوڑے کے ریس میں۔
أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَا سَبَقَ إِلَّا فِي نَصْلٍ، أَوْ خُفٍّ ، أَوْ حَافِرٍ ".
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ انعامی مقابلہ جائز نہیں ہے مگر تیر اندازی اور اونٹ یا گھوڑے کی دوڑ میں ۔(ترمذي: 1700 ابوداؤد: 2574).
اور مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں:
۔۔۔مما ليس من عدة الحرب ولا من باب القوة على الجهاد ، فأخذ المال عليه قمار محظور۔
جن چیزوں کا تعلق جنگ کی تیاری اور جہاد کے لئے قوت کے حصول سے نہ ہو ان پر مال حاصل کرنا جوا اور ممنوع ہے ۔(تحفۃ الاحوذی ۔حدیث :1700)
اور علامہ خطابی مذکورہ حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
لا يحل أخذ المال بالمسابقة إلا في هذه الثلاثة وهي السهام والخيل والإبل وقد ألحق بها ما بمعناها من آلة الحرب لأن في الجعل عليها ترغيبا في الجهاد وتحريضا عليه.
مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ کسی دوسری چیز میں مقابلہ کے ذریعے مال حاصل کرنا حلال نہیں ہے ۔اور دوسرے جنگی سازوسامان کو بھی ان تین کے ساتھ لاحق کردیا گیا ہے اس لئے کہ ان پر انعام مقرر کرنے میں جہاد کے لئے راغب کرنا اور ابھارنا ہے ۔(حاشية السندي على النسائي:3585)
وجہ یہ ہے کہ انعامی مقابلہ میں تملیک کی بنیاد چانس پر ہوتی ہے اور کسی چانس پر تملیک کو معلق کرنا اصلا ناجائز ہے؛ اس لئے قیاس کا تقاضا ہے کہ کسی بھی کھیل میں ہار جیت پر عوض لینا جائز نہ ہو لیکن مذکورہ حدیث کی وجہ سے جہاد میں معاون کھیلوں میں خلاف قیاس اسے جائز رکھا گیا ہے ۔(لان جواز الجعل فيما مر انما ثبت بالحديث على خلاف القياس…. والقياس ان لا يجوز لما فيه من تعليق التمليك على الخطر ولهذا لا يجوز في ما عدا الاربع. رد المحتار 664/9)
عہد نبوی کے بعض پسندیدہ کھیل
عبادت و اطاعت کی ادائیگی اور ظلم و سرکشی کے خاتمے میں جسمانی توانائی اور طاقت معاون ہوتی ہے ۔ اس لئے شریعت کی نگاہ میں ہر وہ کھیل پسندیدہ اور مستحب ہے جس سے جسمانی طاقت اور قوت مدافعت میں اضافہ ہو ۔بلکہ علامہ زرکشی کہتے ہیں کہ جہاد کے وسائل و ذرائع میں مقابلہ بازی کو فرض کفایہ ہونا چاہئے کیونکہ واجب تک پہونچنے کا ذریعہ بھی واجب ہوتا ہے ۔ (دیکھئے الموسوعہ124/24)
اس مقصد کے حصول کے لئے عہد نبوی میں درج ذیل کھیل رائج تھے ۔
4- تیراندازی :
زمانہ نے کتنی کروٹیں بدلیں، دیگر چیزوں کے ساتھ جنگی سازوسامان میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ، تیرو تلوار کی جگہ اب ٹینک اور توپ نے لے لی۔ مگر ان سب ترقیوں کے باوجود تیر اندازی کی آج بھی ایک اہمیت اور قدر و قیمت ہے ، مگر مسلمانوں نے اس عظیم قومی ورثہ کی طرف سے جو بے توجہی و بے التفاتی برتی ہے وہ ناقابل بیان اور ناقابل اظہار ہے ، کاش ان کے پیش نظر اللہ کے رسول ﷺ کا یہ پیغام ہوتا:
واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی(مسلم 142/2، کتاب الامارۃ، ترمذی 139/2 کتاب التفسیر)
اور جتنی طاقت تم حاصل کرسکتے ہو ان کے ذریعے مقابلے کی تیاری کرو۔سنو ! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔سنو! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔سنو ! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔
کاش وہ تیر اندازی کی اس فضیلت کو سامنے رکھتے :
ما تشھد الملائکۃ من لھوکم الا الرھان والنضال.(رواہ السیوطی فی الجامع الصغیر ورمز لہ بالحسن 436/5)
تمہارے کسی بھی کھیل میں فرشتے حاضر نہیں ہوتے ہیں سوا تیر اندازی اور گھوڑ دوڑ کے مقابلے کے۔
اور حضرت سعد بن وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عليكُم بالرَّميِ؛ فإنَّه خَيرُ -أو مِن خَيرِ- لَهوِكُم، عليكُم بالرَّميِ؛ فإنَّه خَيرُ لَعِبكُم۔
أخرجه البزار:1146 والطبراني في المعجم الأوسط2049 .و المنذري فی الترغيب والترهيب248/2 .إسناده جيد قوي.
تیر اندازی کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ یہ تمہارے لئے بہترین کھیل اور تفریح ہے ۔
اور حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ
نبی کریم ﷺ قبیلہ اسلم کے پاس سے گزرے، وہ لوگ تیر اندازی میں مقابلہ کر رہے تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: اسماعیل کی اولاد! تیر چلاؤ ؛کیونکہ تمہارے باپ حضرت اسماعیل تیر انداز تھے اور میں فلاں جماعت کے ساتھ ہوں ،یہ دیکھ کر دوسری جماعت نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیئے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا:تم لوگ تیر کیوں نہیں چلا رہے ہو؟ انھوں نے عرض کیا :جس جماعت میں آپ موجود ہوں ہم اس پر تیر کیسے چلا سکتے ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا:چلو تیر چلاؤ ،اب میں تم سب کے ساتھ ہوں ۔
(مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ ؛ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا، وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ ". قَالَ : فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا لَكُمْ لَا تَرْمُونَ ؟ ” فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ ؟ قَالَ : ” ارْمُوا وَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ .صحيح بخاري: 3373)
اور فقیم لخمی نے حضرت عقبہ بن عامر سے کہا کہ آپ ان دونوں نشانوں کی درمیان دوڑ بھاگ کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ بوڑھے ہوچکے ہیں اور آپ کے لئے یہ بڑا مشکل کام ہے ،انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تو یہ مشقت برداشت نہیں کرتا ۔۔۔آپ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی تیر اندازی سیکھے اور پھر اسے چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے یا اس نے نافرمانی کی۔
(أَنَّ فُقَيْمًا اللَّخْمِيَّ، قَالَ لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : تَخْتَلِفُ بَيْنَ هَذَيْنِ الْغَرَضَيْنِ وَأَنْتَ كَبِيرٌ يَشُقُّ عَلَيْكَ. قَالَ عُقْبَةُ : لَوْلَا كَلَامٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ أُعَانِيهِ. قَالَ الْحَارِثُ : فَقُلْتُ لِابْنِ شُمَاسَةَ : وَمَا ذَاكَ ؟ قَالَ : إِنَّهُ قَالَ : ” مَنْ عَلِمَ الرَّمْيَ، ثُمَّ تَرَكَهُ فَلَيْسَ مِنَّا ” أَوْ ” قَدْ عَصَى ". صحیح مسلم: 1919)
اور امام نووی کہتے ہیں کہ تیر اندازی سیکھنے کے بعد اسے چھوڑ دینے میں شدید ترین کراہت ہے ۔(الموسوعہ 124/24)
اور علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ اگر کوئی جنگ کے کسی طریقے سے واقف ہے جس کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے پھر اس نے اس سلسلے میں کوتاہی کی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دیا تو شدید گنہگار ہوگا کہ اس کی طرف توجہ نہ کرنا جہاد کی طرف توجہ نہ کرنے کی دلیل ہے اور جہاد کی طرف توجہ نہ کرنا تین کی طرف توجہ نہ کرنے کی دلیل ہے۔(نیل الاوطار163/8)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس خط لکھا کہ اپنے بچوں کو تیرنا اور لڑنے والوں کو تیر اندازی سکھاؤ۔ (مسند الفاروق لابن کثیر 378/2)
تیر اندازی اور نشانہ بازی کی پریکٹس کے لئے زندہ جانوروں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔حضرت سعید بن جبر کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمر قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے۔ وہ ایک پرندے کو باندھ کر اس پر نشانہ لگا رہے تھے اور پرندے کے مالک کے مالک سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جو تیر پرندے کو نہ لگے تمہارا ہو جائے گا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو آتے دیکھ کر وہ ادھر ادھر بھاگ گئے۔ انہوں نے پوچھا یہ کس کی حرکت ہے؟ اور فرمایا ایسا کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پہ لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندار کو نشانہ بناتے ہیں۔
(عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ : مَرَّ ابْنُ عُمَرَ بِفِتْيَانٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ نَصَبُوا طَيْرًا وَهُمْ يَرْمُونَهُ، وَقَدْ جَعَلُوا لِصَاحِبِ الطَّيْرِ كُلَّ خَاطِئَةٍ مِنْ نَبْلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوُا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ فَعَلَ هَذَا ؟ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا ؛ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا.صحیح بخاری: 5515۔ صحیح مسلم:1958واللفظ لہ)
لعنت کا سبب یہ ہے کہ اس میں بلاوجہ جانور کو عذاب میں مبتلا کرنا ہے اور درندگی کی علامت اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت اور مال کو ضائع کرنا ہے کہ پریکٹس کے لئے کسی غیر جاندار چیز کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ دورمیں بندوق بھی تیراندازی ہی کے حکم میں ہے اس کا سیکھنا، مشق کرنا کارِ ثواب اور اس پر شرعی حد میں رہ کر انعامی مقابلہ جائز اور پسندیدہ ہے۔
5- نیزہ بازی:
عہد نبوی ﷺ میں نیزہ بازی کا بھی رواج تھا حدیث گزر چکی کہ آنحضرت ﷺ نے حبشیوں کے نیزہ بازی کے کھیل کو خود دیکھا اور زوجہ محترمہ کو دکھایا اور اس کھیل کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:
دونکم یا بنی ارفدہ۔حبشہ کے لوگو:شاباش واہ واہ ۔
لیکن یہ محض ایک کھیل نہیں تھا بلکہ باقاعدہ ایک فوجی ٹریننگ تھی کہ کس طرح سے میدان جنگ میں نیزہ سے حملہ کیا جائے گا اور اگر فریق مخالف نیزہ چلائے تو اس سے بچنے کی کیا تدبیر ہوگی؟۔
6-گھوڑدوڑ:
گھوڑے کو سدھانا اور دوڑانا ایک پسندیدہ اور محبوب کھیل ہے ، اس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود اللہ کے رسول اللہ ﷺ اس میں شریک رہا کرتے تھے(1)۔اور فرماتے تھے کہ گھوڑے کی پیشانی سے قيامت تك خیر و برکت بندھی ہوئی ہے ۔(الخيل معقود بنواصيها الخير الى يوم القيامة. صحيح مسلم : 1872. نسائي:3572.مسند احمد:19196)
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ تیر اندازی اور گھڑ سواری کیا کرو۔ (ارْمُوا وَارْكَبُوا، وَلَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا. ترمذي:1637ابوداؤد:2513)
اور ایک حدیث میں ہے :
كل شيء ليس من ذكر الله فهو لهو او سهو الا اربع خصال مشي الرجل بين الغرضين و تاديبه لفرسه وملاعبته اهله وتعليم السباحة.
جس چیز کا تعلق اللہ کے ذکر سے نہ ہو وہ کھیل تماشا یا غفلت ہے سوائے چار چیزوں کے
دو نشانوں کے درمیان چلنا، (تیر اندازی کرنا) گھوڑے کو سدھانا، اہل خانہ کے ساتھ کھیلنا اور تیراکی سیکھنا.
( أخرجه النسائي في السنن الكبرى:8891. والبيهقي:19771. إسناده جيد.).
حضرت انسؓ سے دریافت کیاگیا کہ آپ لوگ آنحضرت ﷺ کے عہد مسعود میں گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کیاکرتے تھے؟ اور آپ ﷺ اس میں شرکت فرماتے تھے؟ حضرت انسؓ نے فرمایا: ہاں، آنحضور اس میں شریک ہواکرتے تھے، بخدا آپﷺ نے ایک گھوڑے پر بازی لگائی جس کا نام ’’سبحہ‘‘ تھا ، وہ مقابلہ میں دوسرے گھوڑوں سے آگے بڑھ گیا ، یہ دیکھ کر آپﷺ خوشی و مسرت سے کھل اٹھے۔(مسند احمد:13689.سنن دارمی:2474)
نیز آپ ﷺ نے ہمت افزائی کے لیے جیتنے والے کو انعام سے بھی نوازا ، حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں:
سبق رسول اللہ ﷺ بین الخیل و اعطی السابق۔(مسند احمد:5656)
اللہ کے رسول ﷺ نے گھوڑ دوڑ کامقابلہ کروایا اور جیتنے والے کو انعام سے نوازا۔
لیکن یہ فضیلت و اہمیت اسی وقت ہے جبکہ اس میں جوئے کا عنصر شامل نہ ہو، جو گھوڑا جوا کے لیے استعمال ہو، حدیث میں اسے شیطانی گھوڑا کہا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں:رحمانی، شیطانی اور انسانی ۔ رحمانی گھوڑا وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے استعمال کیاجائے، اس گھوڑے کا چارہ اور لید، پیشاب سب قیامت کے دن وزن کیے جائیں گے
(اور اس کے بقدر اس کے مالک کو ثواب دیاجائے گا) اور شیطانی گھوڑا وہ ہے جو جوا کے لیے استعمال کیاجائے اور انسانی گھوڑا وہ ہے جسے انسان افزائش نسل کے لیے پالتا ہے اور وہ اس کی محتاجی دورکرنے کا ذریعہ بن جاتاہے۔(دیکھئے نسائی 120/2، ابن ماجہ/200، مسند احمد395/1، عن ابن مسعود)
گھوڑ دوڑ کی مروجہ صورت-جس میں تمام شرکاء ایک متعین فیس ادا کرتے ہیں اور انعامی رقم صرف جیتنے والے کو ملتی ہے-جوا ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے کیونکہ فیس کے نام پر شرکاء جو رقم ادا کرتے ہیں وہ انعام نہ ملنے کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے ، لوگ اس امید پر یہ رقم اداکرتے ہیں کہ جیت جانے پر ایک بڑی رقم ہاتھ آئے گی اور ہار جانے کی صورت میں بہت معمولی رقم ڈوبے گی ، گویا اس معمولی رقم کو بازی پر لگاتے ہیں اور انجام غیریقینی ہے اور اسی کا نام ’’جوا‘‘ ہے ، علاوہ ازیں گھوڑ دوڑ کا مقصد-جسمانی قوت، جہاد کے لیے ٹریننگ- اس سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ بازی لگانے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ، وہ تو محض شوقیہ نام و نمود اور قسمت آزمائی کے لیے ایسا کرتے ہیں، اگر جوا شامل نہ بھی ہو جب بھی کراہت سے خالی نہیں ، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
اما اذا قصد التلھی او الفخر والشجاعۃ فالظاھر الکراہۃ۔
اگر محض کھلواڑ، خودنمائی اور بہادری مقصود ہو تو مکروہ ہے۔(رد المحتار 258/5)
(1)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ، وَكَانَ أَمَدُهَا مِنَ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ سَابَقَ بِهَا.(صحيح بخاري: 2869)
7- اونٹ دوڑانا:
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اونٹ دوڑانے میں بھی مقابلہ کا رواج تھا ،حدیث گزر چکی ہے کہ انعامی مقابلہ نہیں ہےمگر تیر اندازی ،اور اونٹ اور گھوڑے کی دوڑ میں ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عام طور پر گھوڑے اور اونٹ کو دوڑانے اور پیدل دوڑنے میں مقابلہ کیا کرتے تھے۔ (كانوا يسابقون على الخيل والركاب وعلى اقدامهم . مصنف ابن ابي شيبه508/12)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عضباء نام کی ایک اونٹنی تھی جو مقابلہ میں کبھی شکست نہیں کھاتی تھی ،ایک مرتبہ ایک اعرابی اپنا نوجوان اونٹ لے کے ایا اور اس نے دوڑ میں عضباء کو ہرا دیا ۔اس کی شکست مسلمانوں پر بہت گراں گزری۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھے تو فرمایا: اللہ کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا کی جب بھی کوئی چیز بلند ہوتی ہے تو پھر وہ پست کردی جاتی ہے ۔یعنی دنیا کی کسی بھی چیز پر غرور نہیں کرنا چاہئے ،یہاں کی ہر چیز وقتی اور عارضی ہے اور عروج کے بعد زوال لازمی ہے ۔اس لئے اصل چیز آخرت کی سبقت ہے اور وہی دائمی کامیابی ہے۔اور اسی کے لئے کوشش ہونی چاہئے اور دنیا کے کسی معاملے میں پیچھے رہ جانے پر افسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةٌ تُسَمَّى : الْعَضْبَاءَ، لَا تُسْبَقُ. قَالَ حُمَيْدٌ : أَوْ لَا تَكَادُ تُسْبَقُ. فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَى قَعُودٍ فَسَبَقَهَا، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، حَتَّى عَرَفَهُ فَقَالَ : ” حَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يَرْتَفِعَ شَيْءٌ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا وَضَعَهُ۔ (صحیح بخاری: 2872)
8- تیراکی اور غوطہ خوری:
ورزش کے اعتبار سے تیراکی سب سے مفید کھیل ہے اور اسی کے ساتھ زندگی کی ایک ضرورت بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ ،مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں سمندر یا نہر نہ ہونے کے باوجود تیراکی سیکھنے کی طرف صحابہ کرام کو راغب کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
كل شيء ليس من ذكر الله فهو لهو او سهو الا اربع خصال مشي الرجل بين الغرضين و تاديبه لفرسه وملاعبته اهله وتعليم السباحة.
جس چیز کا تعلق اللہ کے ذکر سے نہ ہو وہ کھیل تماشا یا غفلت ہے سوائے چار چیزوں کے
دو نشانوں کے درمیان چلنا (تیر اندازی کرنا) گھوڑے کو سدھانا ،اہل خانہ کے ساتھ کھیلنا اور تیراکی سیکھنا. ( أخرجه النسائي في السنن الكبرى:8891. والبيهقي:19771. إسناده جيد.).
اور حضرت بکر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
علِّموا بنيكمُ السِّباحةَ والرَّميَ۔
اپنے بچوں کو تیراکی اور تیر اندازی سکھاؤ ۔
(الجامع الصغیر للسیوطی مع الفیض 418/4
مختصر المقاصد للزرقانی: 688 • حسن لغيره .)
اور امام سیوطی نے نقل کیا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کے بارے میں فرمایا کہ یہاں میری والدہ رکی تھیں اور یہیں پر میں نے بنی عدی بن نجار کے حوض پر اچھی طرح سے تیرنا سیکھا تھا۔(الباحة في فضل السباحة /61)
نیز انہوں نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام ایک دن کسی تالاب میں داخل ہوئے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے پاس تیر کر جائے گا، چنانچہ ہر ایک نے ایسا ہی کیا، آخر میں صرف رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکر رہ گئے۔ آپ ﷺ تیر کر ان کے پاس پہونچے اور ان سے بغل گیر ہوگئے اور فرمایا کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔(الباحة في فضل السباحة /62 ۔حدیث مرسل اور سند حسن ہے۔ )
اور حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ اپنے بچوں کو تیراکی اور بڑوں کو تیراندازی سکھاؤ۔( عَلِّمُوا غِلْمَانَكُمُ الْعَوْمَ، وَمُقَاتِلَتَكُمُ الرَّمْيَ. مسند احمد: 323)
اہل عرب میں اسلام سے پہلے اور اسلام کے شروعاتی دور میں جس شخص میں تین خوبیاں (لکھنا ،تیرنا اور تیر اندازی کرنا) جمع ہوجاتیں اسے ایک مثالی انسان سمجھا جاتا اور اسے "الکامل” کے لقب سے یاد کیا جاتا ۔
اور خلیفہ عبدالملک بن مروان نے امام شعبی سے کہا کہ میرے بچوں کو تیراکی سکھا دیں کیوں کہ انھیں ان کی طرف سے لکھنے والے تو مل جائیں گے لیکن ان کی طرف سے تیرنے والے نہیں ملیں گے ۔
ابو ہاشم صوفی سے پوچھا گیا: کہاں مشغول تھے ؟کہا: ایسی چیز کو سیکھ رہا تھا جو بھولتی نہیں ہے اور کسی بھی جاندار کو اس سے چھٹکارا نہیں ہے۔ پوچھا گیا: کون سی چیز؟ کہا تیراکی.(دیکھئے فیض القدیر 418/4)
اور حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ بسااوقات حضرت عمر فاروق مجھ سے فرماتے کہ آؤ ! ڈبکی لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس کی سانس لمبی ہے ؟ حالانکہ ہم اس وقت حالت احرام میں ہوتے ۔
(ربَّما قالَ لي عُمرُ بنُ الخطَّابِ : تعالَ أُباقيَكَ في الماءِ أيُّنا أطوَلُ نفَسًا ، ونحنُ مُحرِمونَ.
مسند الفاروق 305/1.مسند الشافعی :862. معرفۃ السنن والآثار:9705۔إسناده صحيح)
تیراکی ورزش اور کھیل کے ساتھ زندگی کی ایک ضرورت بھی ہے ۔ اور مرد و عورت ہر ایک کو اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اس کی اسی حیثیت کی وجہ سے موجودہ دور میں اسے بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور جگہ جگہ سویمنگ پول بنائے جارہے ہیں اور انعامی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔اور ظاہر ہے کہ اگر جوا کی آمیزش نہ ہو تو اس میں انعامی مقابلہ درست ہے اور یہی حکم غوطہ خوری کا بھی ہے۔
9- دوڑ میں مقابلہ:
دوڑنا بھی ایک بہترین اور عمدہ ورزش ہے ، اس سے بدن میں چستی اور پھرتی آتی ہے ، آنحضرت ﷺ نے خود اپنی امت کی تعلیم کی خاطر نیز خوش طبعی کے لیے حضرت
عائشہ کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا ، چنانچہ وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے دوڑ میں مجھ سے مقابلہ کیا اور میں آگے نکل گئی، پھر جب میرا جسم فربہ ہوگیا اور دوبارہ مقابلہ کیا تو آپ ﷺ جیت گئے اور فرمایا:یہ اس وقت کا بدلہ ہے۔(ابوداؤد 348/1کتاب الجہاد ، مسند احمد39/6 )،
پیدل چلنے میں بھی آپ ﷺ کی رفتار بہت تیز ہوا کرتی تھی، حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے زیادہ تیز چلتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا ،ایسا لگتا تھا کہ آپ کے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہے ،جب ہم آپ کے ساتھ چلتے تو ہمیں بہت مشقت برداشت کرنی پڑتی تھی ۔ (الشمائل للترمذی :129. مسند احمد 8604.صحیح ابن حبان: 6309)
آپ ﷺ نے مکہ سے طائف کا تقریبا 110 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا تھا۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم پیدل چلنے سے تھک جاتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا تیز چلا کرو ،وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اس میں آسانی محسوس ہوئی
( شَكا ناسٌ إلى النَّبيِّ ﷺ المَشْيَ فدَعا بِهِم، فقالَ: عليكم بالنَّسَلانِ فنَسَلْنا فوَجَدناهُ أخَفَّ علينا.مستدرک حاکم: 1639.مسند البزار كما في كشف الأستار:1663.صحیح ابن خزيمة:2537 .مسند اسحاق راہویہ۔المطالب العالية:2018).
ابن الاعرابی کہتے ہیں کہ تیز چلنے سے نشاط پیدا ہوتا ہے ۔(تہذیب اللغہ286/4)
صحابہ کرام بھی آپ ﷺ کی اجازت اور موجودگی میں دوڑ کا مقابلہ کیا کرتے تھے چنانچہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر انہوں نے آپ سے دوڑ میں مقابلہ کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا: جیسی تمہاری مرضی ۔
(وعندما قفل النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه من غزوة تبوك قالت الأنصار: السباق؟! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن شئتم. رواه ابن أبي شيبة 12/ 508).
اور حضرت سلمہ بن اکوع اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر کے موقع پر ایک انصاری جو دوڑنے میں بہت تیز تھے کہنے لگے کیا مدینہ تک کوئی مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کر سکتاہے ؟ ہے کوئی جوان مرد جو مجھ سے مقابلہ کرے؟ میں نے ان سے کہا: آپ کسی شریف کی عزت کا خیال نہیں کرتے؟ آپ کے دل میں کسی باعزت شخص کی قدر و قیمت نہیں ہے؟ وہ کہنے لگے میں اللہ کے رسول ﷺ کے سوا کسی کی پروا نہیں کرتا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے جاکر اجازت چاہی، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو جاؤ مقابلہ کرلو، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑ کا مقابلہ کیا اور آگے ہی رہا۔(صحیح بخاری: 2960.صحیح مسلم:1802)
بلکہ آپ ﷺ بچوں کے درمیان بھی دوڑ کا مقابلہ کرایا کرتے تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ ، عبیداللہ اور حضرت عباس کے دوسرے لڑکوں کو ایک صف میں کھڑا کر کے فرماتے کہ تم میں سے جو سب سے پہلے میرے پاس آئیگا اس کے لئے فلاں فلاں انعام ہے چنانچہ وہ بچے دوڑتے اور آپ کی پشت اور سینے پر جاکر گر جاتے آپ انہیں خود سے چمٹا لیتے اور انہیں بوسہ دیتے ۔
( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُفُّ عَبْدَ اللَّهِ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ، وَكَثِيرًا بَنِي الْعَبَّاسِ، ثُمَّ يَقُولُ : ” مَنْ سَبَقَ إِلَيَّ، فَلَهُ كَذَا وَكَذَا ". قَالَ : فَيَسْتَبِقُونَ إِلَيْهِ، فَيَقَعُونَ عَلَى ظَهْرِهِ وَصَدْرِهِ، فَيُقَبِّلُهُمْ، وَيَلْتَزِمُهُمْ.مسند احمد:1836)
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ اور زبیربن العوام ؓمیں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیر آگے نکل گئے اور کہا: رب کعبہ کی قسم! میں جیت گیا۔ اور پھر دوبارہ جب دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت عمرؓ جیت گئے گئے تو انہوں نے وہی جملہ دہرایا: ربِ کعبہ کی قسم! میں جیت گیا۔( السنن الكبرى للبیہقی 10/ 29).
ان روایات کے پیش نظر فقہاء نے لکھاہے کہ دوڑ میں مقابلہ کرنا اور معاوضہ مقرر کرنا جائز ہے بشرطیکہ جوا کا عنصر شامل نہ ہو۔(ہندیہ 322/5)، نیز یہ کہ دوڑ میں مقابلہ شرف و وقار ، علم و فضل اور بزرگی کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے جب حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا ، اس وقت آپ کی عمر پچاس سے زائد تھی۔(نیل الاوطار 92/8)
کشتی لڑنا:
10- جہاد میں معین و مددگار ہونے کی حیثیت سے کشتی لڑنا بھی جائز ہے ، خود آپ ﷺ نے کشتی لڑی ہے ، حضرت محمدبن علی کہتے ہیں کہ رکانہ نامی ایک شخص نے نبی ﷺ سے کشتی لڑنے میں مقابلہ کیا، جسے آپ ﷺ نے پچھاڑ دیا۔(ابوداؤد 4078.ترمذی :1784)۔اور یہی واقعہ ان کے قبول اسلام کا سبب بنا (الاصابہ فی تمییز الصحابہ 497/2)
اور مشہور واقعہ ہے کہ حضرت رافع بن خدیج کو جنگ احد میں شرکت کی اجازت مل گئی لیکن حضرت سمرہ بن جندب کو کم عمری کی وجہ سے واپس کردیا گیا ،انھوں نے عرض کیا کہ جنھیں آپ نے اجازت دی ہے میں انھیں کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں ،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مقابلہ کرو ۔چنانچہ انھوں نے انہیں ہرا دیا اور ان کو بھی جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مل گئی (مستدرک حاکم: 2387)
اور اس میں معاوضہ مقرر کرنا بھی جائز ہے ، حضرت سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت ہے کہ رکانہ کے ساتھ مقابلہ میں آپ نے معاوضہ مقرر کیا تھا۔(کتاب المراسیل /14 لابی داؤد۔مصنف عبد الرزاق: 20909)،
اور فقہ حنفی کے مشہور عالم علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
وکذا المصارعۃ علی ھذا التفصیل وانما جاز لان فیہ حثا علی الجہاد۔
اور اسی تفصیل کے مطابق کشتی میں بھی معاوضہ مقر ر کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ اس کے ذریعہ جہاد پر ابھارا جاتاہے۔(رد المحتار 259/5)
البتہ فری اسٹائل کشتی اور مکا بازی کی بالکل اجازت نہیں ہے جس میں مد مقابل کی کوئی رعایت نہیں ہوتی ہے بلکہ بالقصد اسے نقصان پہونچایا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے بسا اوقات موت واقع ہوجاتی ہے یا وہ زندگی بھر کے لئے اپاہج ہوجاتا ہے.لہذا وحشت و بربریت پر مشتمل اس پر خطر اور اذیت ناک کھیل کی کی ہرگز گنجائش نہیں ہے ۔
کراٹے کا حکم بھی کشتی سے مختلف نہیں ، صحیح مقصد کے تحت سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اور انعامی مقابلہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔
11- وزن اٹھانا:
وزن برداری کی مشق سے ہڈیاں اور پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور جسم کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اس لئے یہ کھیل بھی جائز ہے۔
متعدد روایات کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں اس کھیل کا رواج تھا ۔نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا اور کوئی نکیر نہیں فرمائی جو اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے ۔
(مر النبي صلى الله عليه وسلم بقوم يربعون حجرا يعني يرفعون ليعرفوا الاشد منهم فلم ينكر عليهم.المغني 602/8.الموسوعة 125/24)
اس سلسلے میں منقول بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں :
النبيَّ ﷺ مرَّ بقومٍ يرفعون حجرًا فقال ما يصنعُ هؤلاءِ فقالوا يرفعون حجرًا يريدون الشِّدَّةَ فقال النبيُّ ﷺ أفلا أَدُلُّكم على ما هو أشدُّ منه أو كلمةً نحوَها الذي يملكُ نفسَه عند الغضبِ (مجمع الزوائد 71/8.الصحیحہ للالبانی 869/7.اسنادہ حسن)
حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ
کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو پتھر اٹھا رہے تھے ۔دریافت کیا :یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ۔عرض کیا گیا: پتھر اٹھا رہے ہیں تاکہ جان سکیں کہ ان میں زیادہ طاقت ور کون ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو اس سے زیادہ طاقتور ہے ؟۔وہ شخص جو غصہ کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے ۔
اس طرح کی روایت حضرت عامر بن سعد اور حضرت مجاہد اور عبد الرحمن بن عجلان سے منقول ہے لیکن یہ لوگ تابعی ہیں اور صحابی کے واسطے کے بغیر حدیث نقل کر رہے ہیں اس اعتبار سے حدیث مرسل ہے ۔ (دیکھئے:مسند البزار: 474/13.7270۔شعب الإيمان: 8276. 306/6.مصنف ابن ابي شيبة 385/8۔ کتاب الزھد لابن مبارک: 748)
البتہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے ایک قول سے بظاہر ناگواری کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ محدث عبدالرزاق نے نقل کیا ہے :
مر ابن عباس وقد ذهب بصره بقوم يرفعون حجرا فقال ما شأنهم؟ فقيل له يرفعون حجرا ينظرون أيهم أقوى. فقال ابن عباس: عمال الله أقوى من هؤلاء.(مصنف عبدالرزاق:20960. 11/ 444 )
حضرت عبداللہ بن عباس کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو پتھر اٹھا رہے تھے ،اس وقت ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی ۔انھوں پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ پتھر اٹھا رہے ہیں تاکہ معلوم ہو کون زیادہ طاقتور کون ہے ۔انھوں نے فرمایا: اللہ کے مزدور ان سے زیادہ قوی ہیں۔
موجودہ دور میں ویٹ لفٹنگ کا کھیل ورزش سے زیادہ نمائش اور بزنس بن گیا ہے جس کے لئے ایک خاص قسم کی غذا دی جاتی ہے اور بلاوجہ پٹھوں اور سینے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مقصد ورزش نہیں بلکہ جذبہ خود ستائی اور خود نمائی کی تسکین مطمح نظر اور کھیل برائے کھیل ہے۔
یہ سب فضول خرچی میں شامل اور وقت کا ضیاع ہے اور نہ اس سے جہاد اور میدان جنگ میں کوئی مدد مل سکتی ہے اور نہ قوت مزاحمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے مٹی کے شیر میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں ۔
12- شکار کرنا:
شکار کھیلنا بھی تفریح اور ورزش کا ایک ذریعہ بلکہ غذا کی فراہمی کا ایک سبب ہے ،جس کی وجہ سے کتاب وسنت میں اس سے متعلق تفصیلی احکام مذکور ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
اُحِلَّ لَکُمۡ صَیۡدُ الۡبَحۡرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیۡکُمۡ صَیۡدُ الۡبَرِّ مَا دُمۡتُمۡ حُرُمًا ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ۔
تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے، تاکہ وہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنے، لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب کو جمع کر کے لے جایا جائے گا۔ (سورہ المآئدۃ : 96)
البتہ بلاضرورت شوقیہ شکار کرنا اور اس کے بعد جانور کو ضائع کردینا جائز نہیں ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ما من انسان يقتل عصفورا فما فوقها بغير حقها الا يساله الله عنها قيل يا رسول الله وما حقها قال: ان يذبحها وياكلها ولا يقطع راسها ويرمي بها .(مستدرك حاكم:7574. مسند احمد بن حنبل: 6551.6550)
جو شخص کسی گوریا یا اس چھوٹے جانور کو ناحق مار دے تو اللہ تعالیٰ اس سے باز پرس کریں گے ۔دریافت کیا گیا: اللہ کے رسول!اس کا حق کیا ہے ؟ فرمایا:اسے ذبح کر کے کھا جائے اور گردن کاٹ کر پھینک نہ دے ۔
اور حضرت شرید بن سوید سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن قتَل عصفورًا عبَثًا عجَّ إلى اللهِ يومَ القيامةِ يقولُ: يا ربِّ إنَّ فلانًا قتَلني عبَثًا ولم يقتُلْني منفعةً۔(نسائی :4446.مسند احمد:19470.صحیح ابن حبان: 5894)
اسی طرح سے اگر شکار کے ذریعے لوگوں کو پریشان کیا جارہا ہے اور ان کی کھیتی وغیرہ کو نقصان ہو رہا ہے تو پھر اس کی اجازت نہیں ہوگی۔
موجودہ دور کے بعض جائز کھیل:
شریعت نے ہر اس کھیل کی اجازت دی ہے جو کسرت اور ورزش کے دائرے میں آتی ہو ،جس سے بدن میں قوت و سرعت پیدا ہوتی ہو اور چستی اور پھرتی آتی ہو یا الجھن اور پریشانی کو دور کرتی ہو ،ذہنی بالیدگی یا تفریح طبع کا ذریعہ ہو۔ یا بوریت اور یکسانیت سے چھٹکارا حاصل کرنا مقصود ہو ۔کیونکہ صحت و تندرستی مطلوب ہے ،اسی طرح سے جسم کا مضبوط اور گٹھیلا ہونا بھی پسندیدہ ہے ، اور ڈھیلا ڈھالا اور کمزور جسم ناپسندیدہ ہے ۔سخت کوشی اور محنت و مشقت کا عادی ہونا مستحسن اور تن آسانی اور سہولیات کی عادت اور سستی و کاہلی مکروہ ہے ۔
حاصل یہ ہے کہ ہر وہ کھیل جس کا مقصد جہاد کے لئے تیاری ہو وہ لائق اجر اور باعث ثواب ہے اور جس سے کوئی دینی و دنیاوی مقصد وابستہ ہو وہ جائز ہے بشرطیکہ وہ واجبات و فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے ۔اس میں جوا اور سٹہ بازی نہ ہو ، جسمانی اور مالی ضرر و نقصان کا اندیشہ نہ ہو ،اسراف اور فضول خرچی سے بچا جائے ،اسے صرف کھیل کی حثیت دی جائے اور اسے دوستی اور دشمنی کا ذریعہ نہ بنایا جائے ، کھیل کا دورانیہ طویل نہ ہو بلکہ تھوڑی دیر اور محدود وقت کے لئے کھیلا جائے اور اس کے علاوہ شریعت کے خلاف کوئی دوسری چیز شامل نہ ہو۔
موجودہ دور میں بعض کھیل لوگوں کے سر پر سوار اور ان کے اعصاب پر مسلط ہیں، ان کا ایسا جنون طاری کردیا گیا ہے گویا وہ اسی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور وہی زندگی کا بنیادی مقصد ہے، اور عوامی رقم کا ایک بڑا حصہ ان پر صرف کیا جارہا ہے اور کھلاڑیوں کو قومی اور ملی ہیرو کا درجہ دیا جارہا اور ان کو اپنا آئیڈیل بنایا جارہا ۔میچ کے دوران ایسا لگتا ہے کہ دو ملکوں کے درمیان خونی جنگ لڑی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں کھیل دیکھنے والوں کے درمیان عداوت دشمنی جنم لیتی ہے اور قتل و غارتگری کی نوبت آجاتی ہے اور تعلیم دوسرے فرائض واجبات سے غفلت برتی جارہی ہے، میچ کے دوران نماز ضائع کرنا ایک عام بات ہے ۔
دفتروں میں کام ٹھپ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی اپنے فرض منصبی سے غافل ہوجاتے ہیں ۔تعلیم گاہیں ویران ہوجاتی ہیں غرضیکہ مذکورہ شرائط میں سے کوئی بھی شرط نہیں پائی جاتی ۔اس لئے اس کے ناجائز ہونے میں کیا کلام ؟
یہ درحقیقت صیہونی سازش کی کامیابی ہے ۔ یہودی علماء مفکروں اور دانشوروں نے پوری دنیا پر بالواسطہ یہودی حکومت قائم کرنے کے لیے پلاننگ کی، اس کے لیے باقاعدہ تجاویز اور قرار داد مرتب کئے ، جس میں کہا گیا کہ لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کرنے کے لیے اور انھیں غفلت اور مدہوشی کی نیند سلانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے درمیان اسپورٹ” اور "آرٹ” کے نام سے ایسی چیزیں رائج کی جائیں جو انھیں حقیقی مسائل سے غافل کر دیں جس کے نتیجے میں وہ ہمارے حقیقی مقاصد سے نا آشنا ہوں گے، اور ہر چیز میں ہماری ہمنوائی کریں گے۔ (بروتوكولات حكماء صهيون/ 167)
انسان کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا گیا ہے کہ وہ کھیل کود کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے اور اپنی پوری توانائی اس میں صرف کردے۔ارشاد باری ہے :
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰکُمۡ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمۡ اِلَیۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ۔
بھلا کیا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمہیں یونہی بےمقصد پیدا کردیا ، اور تمہیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا ؟ (سورہ المؤمنون : 115)
تفسیر:
جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، ان کے موقف کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد پیدا کردی ہے۔ یہاں جس کے جو جی میں آئے کرتا رہے۔ اس کا کوئی بدلہ کسی اور زندگی میں ملنے والا نہیں ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی غلط بات منسوب کرے، لہذا آخرت پر ایمان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا منطقی تقاضا ہے۔
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
بلکہ وہ دنیا میں اللہ کی اطاعت و عبادت کے لئے بھیجا گیا ہے
ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ .
پھر ہم نے ان کے بعد زمین میں تم کو جانشین بنایا ہے تاکہ یہ دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ (سورہ یونس: 14)
لیکن ہم نے کھیل کود کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو فساد اور بگاڑ پیدا ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
1- کبڈی، ہاکی، فٹ بال، کرکٹ وغیرہ:
ہاکی، فٹ بال، والی وال، بیڈمنٹن ، کبڈی یہ سب ایسے کھیل ہیں جو صحت اور ورزش کے نقطہ نظر سے مفید ہیں ، لہٰذا نیک نیتی سے مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے کھیلا جائے تو مباح ہے۔
عورتوں کے لیے وہ تمام کھیل ناجائز ہیں جو مردانہ نوعیت کے ہیں مثلاً کبڈی، والی وال وغیرہ، البتہ بیڈمنٹن یا اس جیسے ہلکے پھلکے کھیل صحت اور ورزش کے نقطۂ نظر سے پردہ کی رعایت کرتے ہوئے کھیلیں تو جواز کی گنجائش ہے۔
2-جوڈو ، کراٹا
دفاعی اور خود حفاظتی نقطۂ نظر سے جوڈو اور کراٹے کا کھیل نہایت مفید ہے ۔اس لئے اس کے سیکھنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً ایسی جگہوں پر جہاں مسلمان ہر وقت خطرے کی زد میں رہتے ہوں وہاں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔
البتہ سیکھنے کے دوران دو باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے :
1-کراٹا ماسٹر کے سامنے سلام کے طور پر جھکا نہ جائے ۔حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کے وقت اس کے سامنے جھک سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں. عرض کیا :کیا اس سے لپٹ کر اسے بوسہ دے سکتے ہیں؟ فرمایا :نہیں۔عرض کیا: اس کا ہاتھ پکڑکر مصافحہ کر سکتے ہیں ؟ فرمایا :ہاں۔
(قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَى أَخَاهُ أَوْ صَدِيقَهُ أَيَنْحَنِي لَهُ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: أَفَيَلْتَزِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَ: أَفَيَأْخُذُ بِيَدِهِ وَيُصَافِحُهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ».”ترمذی: 2728. ابن ماجہ: 3702.مسنداحمد: 13044)
2-کراٹا سیکھنے کے دوران بطور مشق چہرہ پر مکا مارنے سے اجتناب کرے ۔حضرت ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کی اپنے بھائی سے لڑائی ہو جائے تو اس وقت بھی چہرے پر مارنے سے بچے۔
( ” إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ۔ بخاري: 2559.مسلم :2612واللفظ لہ)
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ نووی کہتے ہیں کہ چہرہ جسم کا بڑا نازک حصہ اور انسان کی تمام خوبیوں کا مرکز ہے اور اس کے اجزاء بڑے نفیس اور لطیف ہیں،احساس و ادراک کے زیادہ تر آلات وہیں موجود ہیں، لہذا چہرے پر مارنے سے یہ چیزیں ضائع ہوسکتی ہیں یا ان میں نقص پیدا ہو سکتا ہے یا کبھی چہرہ بگڑ سکتا ہے۔ اور چہرے کا عیب بہت برا معلوم ہوتا ہےکہ وہ بالکل سامنے ہوتا ہے اور اسے چھپانا ممکن نہیں۔ اور چہرہ پر مارنے کی وجہ سے عام طور پر کوئی نہ کوئی عیب پیدا ہوجاتا ہے اور ممانعت میں وہ صورت بھی داخل ہے جبکہ بطور تادیب اپنی بیوی، بچے یا غلام کو مارے۔(شرح نووی ۔ حدیث رقم: 2612)
3-علمی مقابلہ:
دین کی حفاظت و صیانت اور مدافعت کبھی تیر و تلوار سے کی جاتی ہے اور کبھی زبان و قلم سے ۔ چنانچہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جاھدوا المشرکین بأموالکم وأنفسکم و ألسنتکم۔
مشرکوں سے جان و مال اور زبان کے ذریعہ جہاد کرو۔ (ابوداؤد: 2504)
زبان و قلم کی اہمیت ہر دورمیں مسلم رہی ہے ، یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جس کی افادیت کا شاید ہی کوئی منکر ہو، موجودہ حالات میں جب کہ ہر طرف سے باطل کی فکری یلغار اور علمی یورش برپا ہے ، ایمانیات ، اعتقادیات میں شک و شبہ پیدا کیاجارہا ہے، مسلمات میں طرح طرح سے کیڑے نکالے جارہے ہیں تو ایسی حالت میں اس کی اہمیت اور وقعت اور دوچند ہوجاتی ہے ، یقینا ان چیزوں کا علمی طرز پر دفاع کرنے والا اور جواب دینے والا کسی مرد مجاہد سے کم نہیں، اور یقینا علمی صعوبتوں ، پریشانیوں اور کٹھنائیوں کو طے کرنے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنے کے لیے باہمی مقابلہ کروانا ،معاوضہ اور انعام دینا اور بازی لگانا جائز ہے ۔ محقق عبداللہ بن محمد لکھتے ہیں:
اور اسی طرح دو عالموں کے درمیان اختلاف کی صورت میں کسی بڑے عالم کے پاس رجوع ہونے کی ضرورت پڑجائے اور اس پر کوئی معاوضہ مقرر ہوجائے یعنی یہ شرط ٹھہرا لیں کہ اگر ان کا جواب تمہارے موافق ہوا تو میں تم کو اتنی رقم دوں گا اور اگر انھوں نے میری تائید کی تو میں تم سے کچھ نہیں لوں گا ، یہ جائز ہے ، اس لیے کہ جہاد کی وجہ سے جب گھوڑ سواری میں معاوضہ مقرر کرنا جائز ہے تو اس میں کیونکر جائز نہ ہوگا ، جبکہ اس کے ذریعہ علم دین حاصل کرنے کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے اور جس طرح دین کی حفاظت و صیانت جہاد سے ہوتی ہے ، اسی طرح علم سے بھی ہوتی ہے۔(مجمع الانھر 550/2)
البتہ اگر شرط دو طرفہ ہو تو جوا کی وجہ سے جائز نہیں۔ علامہ ابن عابدین شامی رقمطراز ہیں:
اور اگر یہ شرط ہوکہ جس کی بات صحیح ہو دوسرا اسے اتنا روپیہ دے گا تو یہ صحیح نہیں ، اس لیے کہ یہ دو طرفہ شرط ہے اور جوا ہے ، الا یہ کہ درمیان میں کسی محلل کو داخل کرلیاجائے مثلاً کسی مسئلہ میں تین رائیں پیدا ہوگئی ہوں اور دو آدمی یہ شرط لگالیں کہ اگر تیسرے کی رائے درست ہو تو ہم دونوں اسے معاوضہ دیں گے اور اگر ہم میں سے کوئی جیت گیا تو اس کا تیسرے پر کچھ نہیں ہے۔(رد المحتار286/5)
4-تعلیمی تاش:
تعلیمی طریقوں کو سہل اور آسان بنانے کی غرض سے نیز بچوں کی نفسیات کے پیش نظر کھیل کود اور سیر و تفریح کی چیزوں میں بھی ذہنی اور فکری تربیت کے سامان مہیا کردئے گئے ہیں، انھیں طریقوں میں سے ایک تعلیمی تاش بھی ہے جس سے لغت اور زبان کے سیکھنے میں کافی مدد ملتی ہے ، اس لیے علماء نے لکھاہے کہ تعلیمی تاش کھیلناجائز ہے ، چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
اگر ہار جیت نہ ہو تو جائز ہے بلکہ مبتدیوں کے حق میں شاید مفید ہو۔(امداد الفتاویٰ252/4)
اس کے جواز پر شامی کی درج ذیل عبارت سے بھی استدلال کیاجاسکتاہے:
اور یہ معلوم کرنا کہ مٹھی میں کیا ہے ؟ جفت ہے یا طاق؟ اور انگوٹھی سے کھیلنا ، میں نے بعض فقہاء شوافع سے سنا ہے کہ یہ ان کے یہاں اس وقت جائز ہے جبکہ وہ حسابی قواعد پر مبنی ہو نہ کہ محض اٹکل اور چانس پر مدار ہو، میں کہتا ہوں ہمارے یہاں بھی اسی وقت جائز ہے جبکہ اس سے حساب دانی کی مشق مقصود ہو۔(رد المحتار 259/5، نعمانیہ دیوبند)
5-معمہ:
آج کل رسائل و جرائد کا ایک گوشہ معمہ کے لئے خاص ہوتا ہے ، معمہ ادبی بھی ہوتا ہے ، سیاسی اور سماجی بھی نیز دینی اور مذہبی بھی، غرضیکہ اس سے کوئی نہ کوئی دینی یا دنیوی مفاد وابستہ ہے، اس وقت عام طور سے معمہ کی دو صورتیں رائج ہیں:
1-اخبار و رسائل میں کوپن ہوتے ہیں اور معمہ کے حل کے ساتھ کوپن بھیجنا ضروری ہوتاہے۔
2-معمہ کے حل کے ساتھ کچھ فیس بھی مطلوب ہوتی ہے۔
پہلی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ اگر خریدار کو کوپن کے ساتھ بھی رسالہ و اخبار اتنی ہی قیمت میں ملتاہے جتنا کہ عام طور پر مارکٹ میں بغیر کوپن کے اس قسم کا رسالہ و اخبار دستیاب ہے تو یہ صورت جائز ہے کیونکہ خریدار کو اپنی رقم کا پورا معاوضہ رسالہ و اخبار کی شکل میں مل چکا ہے ، اس کی رقم کا کوئی حصہ داؤ پر نہیں لگا، اس لئے انعام نہ ملنے کی صورت میں کوئی نقصان نہں، لیکن کوپن والے رسالہ کی قیمت اس جیسے عام رسالوں سے زائد ہو تو یہ درست نہیں کیونکہ سمجھاجائے گا کہ وہ کوپن کی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ لے رہاہے اور لوگ انعام کی لالچ میں زائد رقم گوارا کرلیتے ہیں اور اس زائد رقم کو داؤ پر لگادیتے ہیں اور کسی رقم کو داؤ پر لگانا اور انجام سے بے خبری، یہی ’’جوا‘‘ ہے ، دوسری
صورت صریح جوا ہے۔ اس لیے بہر صورت ناجائز اور حرام ہے۔
حرام اور مکروہ کھیل :
اللہ عزوجل نے کامیاب مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ۔
اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔(سورہ المؤمنون آیت :3)
تفسیر:
لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا.
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور اپنے خاص بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا۔
اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے۔ اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔( سورہ الفرقان: 72)
اور باشعور دنیاداروں کے نزدیک بھی عقلمند اسے ہی سمجھا جاتا ہے جو اپنے آپ کو فضول کاموں سے دور رکھتا ہے۔ اور دنیاوی اعتبار سے انھیں کے حصے میں کامیابی آتی ہے جو زندگی کے لمحات کی قدر کرتے ہیں اور قیمتی وقت کو بیکار اور فضول کھیل کود میں ضائع نہیں کرتے ہیں ۔
اسلام دین فطرت ہے ، جودنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتا ہو وہ بے مقصد اور فضول کھیل تماشا کو کیسے گورا کرسکتا ہے ؟چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ.
لھو و لعب میں صرف تین چیزیں شامل نہیں ہیں ۔اپنے گھوڑے کو سدھانا ،اپنی گھر والی کے ساتھ دل لگی کرنا اور تیر چلانا۔(ابوداؤد: 2513)
علامہ خطابی مذکورہ حدیث کی شرح میں کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کھیل تماشا کی تمام قسمیں ممنوع ہیں سوائے اس کے جو اس حدیث میں ذکر کی گئی ہیں۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ کھیلوں کی اجازت اس لیے دی کہ غور کرنے پر معلوم ہوگا ان میں سے ہر ایک یا تو حق کام کے لیے معاون ہے یا اس کا ذریعہ ہے اور اس کے مفہوم میں وہ تمام کھیل شامل ہیں جن سے کسرت اور ورزش ہوتی ہو اور جسم مضبوط اور دشمن سے مقابلے کی قوت حاصل ہوتی ہو جیسے کہ ہتھیاروں کا مقابلہ اور دوڑ لگانا اور اس جیسے دوسرے کھیل۔ رہے وہ کھیل جسے نکمے لوگ کھیلتے ہیں جیسے کہ چوسر اور شطرنج اور کبوتر بازی وہ سب ممنوع ہیں اس لیے کہ اس سے نہ تو کسی نیک کام میں مدد ملتی ہے اور نہ ہی کسی واجب کی ادائیگی کے لیے فرحت کا سامان حاصل ہوتا ہے۔(معالم السنن 242/2)
اور مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
اوپر یہ بات تفصیل سے آچکی ہے کہ مذموم اور ممنوع وہ لہو اور کھیل ہے جس میں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو، جو کھیل بدن کی ورزش صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لیے یا کسی دوسری دینی و دنیاوی ضرورت کے لیے یا کم از کم طبیعت کا تھکان دور کرنے کے لیے ہوں اور ان میں غلو نہ کیا جائے کہ انہی کو مشغلہ بنا لیا جائے اور ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑنے لگے ایسے کھیل شرعا مباح اور دینی ضرورت کی نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہے۔(معارف القرآن 23/7)
حاصل یہ ہے کہ ہر وہ کھیل ناجائز ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہو یا وہ جوا اور قمار پر مشتمل ہو یا اس سے کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ وابستہ نہ ہو ، نہ اس سے جسمانی ورزش ہوتی ہو اور نہ ذہنی نشوونما، نہ اس سے مقصود دماغی الجھن سے چھٹکارا پانا ہو اور نہ تفریح طبع اور نہ دل و دماغ کو راحت پہچانا۔محض وقت گذاری کا ایک ذریعہ ہو، جس میں وقت کے ضیاع و نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہ ہو ۔اور ایک طویل وقت تک کھیلا جائے ۔قلت انہماک ہر کھیل کے جواز کے لئے بنیادی شرط ہے ۔
1-کنکری مارنا :
انگلی پر کنکری رکھ کر پھینکنے کو عربی زبان میں "خذف” کہا جاتا ہے. یہ ایک بے کار مشغلہ ہے اس لئے حدیث میں شدت کے ساتھ اس سے منع کیا گیا ہے ۔حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی کہتے ہیں:
نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَذْفِ ، وَقَالَ : ” إِنَّهُ لَا يَقْتُلُ الصَّيْدَ وَلَا يَنْكَأُ الْعَدُوَّ، وَإِنَّهُ يَفْقَأُ الْعَيْنَ وَيَكْسِرُ السِّنَّ ".
نبی ﷺ نے کنکری پھینکنے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے : اس سے نہ تو کسی جانور کا شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی دشمن کو گہری چوٹ پہونچائی جاسکتی ہے ۔البتہ کسی انسان کی آنکھ پھوٹ سکتی ہے اور دانت ٹوٹ سکتا ہے ۔ (صحیح بخاری: 6220. صحیح مسلم :1954)
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس لیے منع کیا کہ یہ نہ تو آلات حرب و ضرب میں سے ہے کی اس کی مشاقی جائز ہو جیسے کہ تیر اندازی ہے اور نہ شکار کے آلات میں سے ہے کہ شکار میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے ۔لہذا یہ فضول اور لایعنی کھیل ہے، اسے کھیلنا جائز نہیں ہے۔ اور کبھی اس کا انجام غلط ہوسکتا ہے کہ اچانک کسی کی آنکھ میں لگ جائے اور وہ پھوٹ جائے (اکمال المعلم 393/6)
2-چوسر:
بے فائدہ کھیلوں میں سے ایک چوسر ہے،
جو بخت واتفاق (Luck and chance ) پر مبنی لوڈو کی طرح ایک کھیل ہے جس میں اصل مدار نگ اور دانے پر ہوتا ہے، اس پر جتنے نمبر آتے ہیں اس کے مطابق کھلاڑی کی گٹی آگے بڑھتی ہے ۔اگر بائی چانس کسی کے سازگار نمبر آتے رہے تو وہ جیت جاتا ہے اور اگر ناموافق نمبر آئے تو ہار جاتا ہے ۔
چوسر کا رواج عہد نبوی میں تھا اور رسول اللہ ﷺ نے سخت الفاظ میں اس کی مذمت بیان فرمائی ہے چنانچہ حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ فَكَأَنَّمَا صَبَغَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ”.
جس شخص نے چوسر کھیلا گویا کہ اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور خون میں رنگ لیا۔(صحیح مسلم: 2260.سنن ابوداؤد:4939 )
یعنی جس طرح سے ہاتھ کو نجاست سے آلودہ کرنا حرام ہے اسی طرح سے چوسر کھیلنا حرام ہے یا یہ خنزیر کے گوشت اور خون سے ہاتھ آلودہ کرنا گویا کہ اس کی قباحت و گندگی سے دل و دماغ خالی ہے لہذا اسے کھانے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوگی اور اسے ہاتھ میں لینا اسے کھانے کا ذریعہ بن جائے گا اسی طرح سے چوسر حرام کے ارتکاب کے ذریعہ ہے ۔
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ".(موطا مالك:2752.سنن ابوداؤد:4938)
جس نے چوسر کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔(الموطا:2752.سنن ابوداؤد: 4938۔)
ان دونوںاحادیث میں ایک عمومی حکم بیان کیا گیا ہے یعنی خواہ اس میں جوا ہو یا نہ ہو بہر صورت ممنوع ہے ۔اسے جوئے کے ساتھ خاص کرتے ہوئے یہ نہیں کہا گیا ہے جو جوئے کے ساتھ چوسر کھیلے وہ ایسا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر اپنے گھر میں کسی کو چوسر کھیلتے ہوئے دیکھتے تو اس کی پٹائی کرتے اور چوسر کو توڑ دیتے ۔(الادب المفرد: 1273)
اور حضرت عائشہ صدیقہ کو اطلاع ملی کہ ان کے گھر میں بطور مہمان اقامت پذیر کچھ لوگوں کے پاس چوسر کے ساز وسامان ہیں تو انہوں نے پیغام بھیجا کہ اگر اسے نہیں پھینکا تو ہم آپ کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں گے ۔(الادب المفرد: 1274)
مذکورہ احادیث کے پیش نظر تمام فقہاء متفق ہیں کہ چوسر بہرصورت حرام ہے ، خواہ جوا کے طور پر کھیلا جائے یا محض دل بہلانے اور وقت گذاری کے لیے۔چنانچہ علامہ ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں کہ چوسر جوائے کے بغیر بھی اجماعی طور پر حرام ہے ۔
(المغنی 156/14)
اور بعض لوگوں نے نقل کیا ہے کہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مغفل اور مشہور تابعی حضرت عکرمہ ،شعبی ،سعید بن مسیب اور امام زہری اسے جائز سمجھتے تھے ۔لیکن علامہ باجی نے لکھا ہے کہ ان حضرات سے صحیح سند کے ساتھ جواز منقول نہیں ہے۔ اور اگر ثابت مان لیا جائے تو کہا جائے گا کہ ان کو حرمت سے متعلق حدیث نہیں پہونچی تھی۔ (المنتقی 278/7 نیز الذخیرہ للقرافی 278/13)
اور امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ قرآن میں مذکور لفظ "میسر” میں چوسر بھی شامل ہے ۔نیز وہ کہتے ہیں کہ میسر کے حرام ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اس میں جوا ہو. (مجموع الفتاوی 142/32-253/32)
اور علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ ہر وہ کھیل جسے تھوڑی دیر کھیلنا ایک طویل وقت تک کھیلنے کا داعی اور ذریعہ ہو اور اس کی وجہ سے کھیلنے والوں کے درمیان بغض و عداوت پیدا ہو اور اللہ کے ذکر اور نماز سے رکاوٹ بنے تو وہ شراب کی طرح ہے اور حرام ہے. (تفسیر قرطبی 165/8)
اور علامہ ابن حجر ہیتمی کہتے ہیں کہ چوسر کے حرام ہونے کی حکمت یہ ہے اس کھیل کا مدار بخت و اتفاق اور گمان و اندازے پر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں جھگڑا ہوتا ہے اور دشمنی جنم لیتی ہے اور علماء شافعیہ نے اس پہ قیاس کرتے ہوئے ہر اس کھیل کو حرام کہا ہے جس کا مدار بخت و اتفاق پر ہو. (نہایۃ المحتاج295/8.الموسوعہ224/40)
علامہ باجی کہتے ہیں کہ یہ کھیل عام طور پر اللہ کے ذکر سے غافل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اور ایک طرح کا "میسر” ہے جس کا مقصد ایسی چیزوں میں انہماک ہے جس کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے ۔(المنتقی 278/7)
3-شطرنج:
یہ سنسکرت لفظ چترانگ سے عربی بنالیا گیا ہے، اس میں چھ قسم کے مہرے ہوتے ہیں جو شاہ، فرزین، فیل، اسپ، رخ اور پیدل کہلاتے ہیں، اس میں دو ملک کے بادشاہوں کو لڑتے ہوئے دکھلایا جاتا ہے۔
تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ شطرنج حرام ہے اگر مالی ہار جیت ہو یا اس حد تک انہماک ہو کہ واجبات و فرائض فراموشی ہو جائیں مثلاً نماز وقت پر نہ پڑھے یا اس درجہ گرویدگی اور شغف ہو کہ اس کی لت لگ جائے اور اس کے بغیر چین نہ آئے یا جھوٹ، فحش گوئی یا ضرر شامل ہو ۔(معالم السنن242/2)
اور اگر ایسا نہ ہو تو فقہاء کے درمیان اختلاف ہے مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک بہر صورت حرام ہے اور بعض شافعی علماء بھی اسی کے قائل ہیں ۔اور حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی اور شافعیہ کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔اور ان کے یہاں ایک قول جواز کا ہے ۔(دیکھئے الموسوعہ 270/35.رد المحتار 650/9)
امام نووی کہتے ہیں:
وأما الشطرنج فمذهبنا أنه مكروه ليس بحرام ، وهو مروي عن جماعة من التابعين ، وقال مالك وأحمد : حرام . قال مالك : هو شر من النرد ، وألهى عن الخير ، وقاسوه على النرد ، وأصحابنا يمنعون القياس ، ويقولون : هو دونه .
شطرنج کے بارے میں شافعیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ مکروہ ہے حرام نہیں۔ تابعین کی ایک جماعت سے یہی منقول ہے۔اور امام مالک اور احمد کہتے ہیں کہ وہ حرام ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ وہ چوسر سے بدتر اور خیر کے کاموں سے سب سے زیادہ غافل کرنے والا ہے اور ان لوگوں نے اسے چوسر پر قیاس کیا ہے۔ ہمارے اصحاب اس قیاس کو صحیح نہیں سمجھتے اور وہ کہتے ہیں کہ شطرنج چوسر سے کم تر ہے۔(شرح نووی علی الصحیح لمسلم. رقم الحدیث: 2260)
حرام یا مکروہ تحریمی کہنے والوں کے دلائل یہ ہیں:
1-قرآن پاک میں میسر سے منع کیا گیا ہے(سورہ المائدہ: 90 )اور حضرت علی سےمنقول ہے کہ شطرنج بھی میسر ہے ۔(الشطرنج هو ميسر الاعاجم. السنن الكبرى للبيهقي 358/10)
2-بعض احادیث میں شطرنج کھیلنے پر شدید وعید بیان کی گئی ہے ۔لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ احادیث جس میں صراحتاً شطرنج کی ممانعت مذکور ہے وہ سندی اعتبار سے ثابت اور لائق استدلال نہیں ہیں ۔(الترغیب للمنذری24/4.عمدۃ المحتج/66 .نیل الاوطار 75/8)
3-رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لھو المومن باطل الا الثلاث تادیبہ لفرسہ، مناضلتہ عن قوسہ وملاعبتہ مع أھلہ(نیل الاوطار 85/8)
مومن کا ہر کھیل باطل ہے، سوا تین چیزوں کے : گھوڑے کو سدھانا، تیراندازی کی مشق کرنا، اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھیلنا۔
4- حضرت علی نے کچھ لوگوں کو شطرنج کھیلتے ہوئے دیکھ کر یہ آیت پڑھی:
اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا ہٰذِہِ التَّمَاثِیۡلُ الَّتِیۡۤ اَنۡتُمۡ لَہَا عٰکِفُوۡنَ۔
وہ وقت یاد کرو جب انہوں (حضرت ابراہیم علیہ السلام)نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ : یہ کیا مورتیں ہیں جن کے آگے تم دھرنا دیے بیٹھے ہو ؟ (سورہ الانبیآء : 52)
اور فرمایا:
اپنے ہاتھ میں آگ رکھ لینا یہاں تک کہ وہ بجھ جائے شطرنج کھیلنے سے بہتر ہے.(انه مر على قوم يلعبون الشطرنج قال: ما هذه التماثيل التي انتم لها عاكفون. [سورةالانبياء 52].لان يمس جمرا حتى يطفأ خير له من ان يمسها۔السنن الكبرى 358/10.تفسیرقرطبی 339/8)
حضرت عبداللہ بن عمر سے شطرنج کے بارے میں دریافت کیاگیا تو فرمایا: وہ چوسر سے بدتر ہے۔(هو شر من النرد. السنن الکبری 359/18. الدر المنثور 169/7)
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں:
شطرنج صرف خطاکار شخص کھیلتا ہے ۔(لا يلعب بالشطرنج الا خاطئ.
اور حضرت عائشہ اور حضرت ابو سعید خدری سے بھی اس کی کراہت منقول ہےگرچہ اس میں جوا نہ ہو۔
اور امام مالک کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس کو ایک یتیم کے مال کا ذمہ دار بنایا گیا جس میں شطرنج بھی تھا تو انہوں نے اسے جلا دیا۔ (السنن الکبری 359/10)
5-حضرت سعید ابن المسیب سے شطرنج کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا وہ باطل ہے اور اللہ باطل کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح سے ابن شہاب زہری سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ باطل ہے اور میں اسے پسند نہیں کرتا۔ابو جعفر سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ہمیں اس مجوسیت سے دور رکھو۔(السنن الکبری359/10)
یحیی لیثی کہتے ہیں امام مالک نے فرمایا شطرنج میں کوئی خیر نہیں ہے وہ اسے کھیلنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور یہ ایت پڑھتے تھے:
فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الۡحَقُّ ۚ فَمَا ذَا بَعۡدَ الۡحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ۚۖ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ ۔
پھر تو لوگو ! وہی اللہ ہے جو تمہارا مالک برحق ہے، پھر حق واضح ہوجانے کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ؟ اس کے باوجود تمہیں کوئی کہاں الٹ لئے جارہا ہے؟ (سورہ یونس: 32. الموطا958/2)
اور عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں امام مالک شطرنج کو مکروہ سمجھتے تھے خواہ کم کھیلا جائے یا زیادہ اور ان کا خیال تھا کہ وہ چوسر سے بدتر ہے۔ (المدونہ 79/4)
6-شطرنج بھی چوسر کی طرح ہے ،دونوں کا شمار بے فائدہ کھیل تماشا میں ہوتا ہے اور دونوں اللہ کے ذکر اور نماز سے رکاوٹ بنتے ہیں ۔(ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر وكل لهو؛ لأنه إن قامر بها فالميسر حرام بالنص وهو اسم لكل قمار، وإن لم يقامر فهو عبث ولهو. وقال ﷺ: «لهو المؤمن باطل إلا الثلاث: تأديبه لفرسه، ومناضلته عن قوسه، وملاعبته مع أهله۔ الہدایہ 380/4)
امام شافعی کا خیال ہے کہ تین شرطوں کا لحاظ رکھتے ہوئے شطرنج کھیلا جاسکتا ہے: 1-اس میں مشغول ہوکر نماز اور دیگر واجبات سے غافل نہ ہو۔
2-جوا کی آمیزش نہ ہو۔
3-دوران کھیل زبان کو فحش، بدگوئی اور جھوٹ سے محفوظ رکھے، اگر ان شرطوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ کیا جائے تو یہ کھیل حرام ہوگا۔
ان کا کہنا ہے:
1- تمام چیزیں اصلا مباح ہیں جب تک کہ کسی شرعی دلیل سے اس کی حرمت ثابت نہ ہوجائے اور شطرنج کی حرمت کے سلسلے میں کوئی واضح اور صحیح شرعی دلیل موجود نہیں ہے .
2-اور اسے چوسر پر قیاس کرنا درست نہیں ہے کیونکہ دونوں کے درمیان نمایاں فرق ہے ۔چوسر کا مدار بخت و اتفاق پر ہوتا ہے تویہ زمانہ جاہلیت کے فال کی طرح ہے جس میں تیروں کے ذریعے قسمت جاننے کی کوشش کی جاتی تھی اور اس کے برعکس شطرنج میں قسمت کے بجائے ذہانت و فراست پر اعتماد کیا جاتا ہے اور اس سے جنگ کی ٹریننگ حاصل ہوتی ہے۔تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ تیر اندازی کا مقابلہ ۔
نیز شطرنج میں ہار جیت کا مدار حساب دانی اور پیش بینی پر ہوتا ہے جس کے لیے ذہانت و لیاقت ،فراست و مہارت اور حاضر دماغی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے برعکس چوسر کا مدار ظن و تخمین اور قسمت پر ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا عادی عام زندگی میں بھی خیالی دنیا میں رہنے لگتا ہے اور غور و فکر اور تدبیر کی جگہ حماقت اور کم عقلی آجاتی ہے اور اس کے بر خلاف شطرنج کے ذریعے ذہن تیز ہوتا ہے اور اس کے ذریعے جنگ کے طریقے معلوم ہوتے ہیں اور اس کا کھلاڑی عملی زندگی میں صاحب بصیرت اور دور اندیش ہوتا ہے۔ (دیکھیے الموسوعہ 270/35)
لیکن ظاہر ہے کہ کوئی شطرنج اس مقصد سے نہیں کھیلتا ہے بلکہ مقصد جوا ہوتا ہے یا وقت گزارنا ۔اور موجودہ دور میں جنگی تدبیر اور نظم سے شطرنج کا کوئی تعلق نہیں ہے
3- اور صحابہ کرام میں سے حضرت ابو ہریرہ. تابعین میں سے حضرت سعید بن جبیر وغیرہ سے اس کا کھیلنا منقول ہے ۔(نیل الاوطار 259/8۔الموسوعہ 270/35)
لیکن اس طرح کے اقوال وافعال کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں۔ (المنتقی278/7 .عمدۃ المحتج للسخاوی/ 123)
اور اگر ثابت مان بھی لیا جائے تو یہ ایک متعین واقعہ ہے جس کی تاویل کی جاسکتی ہے مثلاً حضرت شعبی سے جہاں کھیلنا منقول ہے وہیں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ حجاج کے خوف سے چھپے ہوئے تھے ۔ (وذلك انه كان متواريا من الحجاج .السنن الکبری 357/10)
ہوا یہ تھا کہ علماء کی ایک بڑی تعداد نے حجاج کے ظلم کے خلاف بغاوت کی جو ناکام ہوگئی اس کے بعد اس نے اس میں شامل تمام لوگوں کی ڈھر پکڑ شروع کردی اور جو گرفتار ہوتے انھیں قتل کردیا جاتا ۔
ظاہر ہے اس حالت میں درس و تدریس کی مجلس قائم نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی
ہر وقت ذکر و تسبیح اور تلاوت قرآن میں مشغول رہا جاسکتا ہے اور پوشیدگی کے طویل دورانیہ میں وقت گزارنا بڑا مشکل ہوتا اس لئے بدرجہ مجبوری وہ کھیلا کرتے تھے ۔
4-لوڈو، تاش، کیرم بورڈ وغیرہ:
چوسر اور شطرنج ہی کی طرح لوڈو، تاش اور کیرم بورڈ بھی ہے بلکہ اس سے بدتر کہ سوائے وقت گذاری کے کوئی فائدہ نہیں، اگر رقم کی شرط ٹھہرا لی جائے گرچہ بغیر جوا کے یکطرفہ طور پر ہو یا کوئی تیسرا بطور انعام دے تو بھی باعث گناہ اور ناجائز ہے۔ فقہ و فتاویٰ کی مشہور کتاب ہندیہ میں ہے:
وکل لھو ما سوی الشطرنج حرام بالاجماع۔
شطرنج کے علاوہ ہر کھیل بہ اجماع حرام ہے۔(ہندیہ 352/5)
یعنی شطرنج کے حرام اور جائز ہونے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے مگر شطرنج کے علاوہ دیگر بے فائدہ کھیلوں کی حرمت کے سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں، تمام فقہاء بیک زبان حرام ہونے کے قائل ہیں، وجہ یہ ہے کہ شطرنج میں تو کچھ فائدہ ممکن ہے مثلاً اس سے ذہنی بالیدگی اور فکری تربیت حاصل ہوتی ہے ، اس سے جنگ کے طریقے معلوم ہوتے ہیں، جہاد کے لیے معاون ہے جیساکہ امام شافعی کا خیال ہے۔ مگر لوڈو وغیرہ میں ایسا کوئی فائدہ متصور نہیں ہے ۔ لوڈو اور تاش ہی سے ملتاجلتا ایک کھیل’’چودہ گٹی‘‘ ہے ۔ علماء نے صراحتاً اسے حرام قرار دیاہے۔امام رازی لکھتے ہیں:
شطرنج، چوسر اور ہر قسم کی لہو و لعب کی چیز مکروہ ہے۔ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ﴾ (یعنی بعض لوگ فضول باتوں کا سامان خریدتے ہیں) اللہ تعالیٰ نے جس کی مذمت بیان فرمائی اور اس پر عذاب کی وعید سنائی ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے کھیل تماشے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کھیل تماشے کو مجھ سے کوئی ربط ہے”۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شطرنج کھیلنے کی ممانعت منقول ہے۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک جماعت کے پاس سے گزرے جو شطرنج کھیل رہی تھی، تو آپ نے یہ آیت پڑھی:
ماهَذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُوْنَ۔
یہ کیا مورتیاں ہیں جن کے آگے تم دھرنا دیے بیٹھے ہو ؟(سورہ الانبیاء: 52)
یہ سب باتیں اس کھیل کے سخت مکروہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
(شرح مختصر الطحاوي للجصاص۔8/ 544)
اورمحقق عبداللہ بن محمد لکھتے ہیں:
ویحرم اللعب بالنرد والشطرنج والاربعۃ عشر۔
چوسر، شطرنج اور چودہ گٹی کھیلنا حرام ہے۔(مجمع الانھر 553/2)
علامہ شامی مزید وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں:
چودہ گٹی کھیلنا حرام ہے ، اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ لکڑی کے ایک ٹکڑے پر تین سطریں کھینچ دی جاتی ہیں اور ان پر چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ دئے جاتے ہیں۔(رد المحتار 271/5۔رشیدیہ پاکستان)
امام مالک سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ گھر میں چودہ گٹی کا کھیل کھیلتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟انہوں نے کہا مجھے یہ پسند نہیں ہے اور کھیل تماشا مومن کی شان کے خلاف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلا الضَّلالُ۔
پھر حق واضح ہوجانے کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ؟ [سورہ يونس: 32]
ابن رشد کہتے ہیں کہ چودہ گٹی کا کھیل معروف و مشہور ہے جسے چوسر کی طرح کھیلا جاتا ہے ۔( البيان و التحصيل 577/17)
کیرم بورڈ وغیرہ کی شکلیں گرچہ کچھ مختلف ہوتی ہیں مگر ان سب کا مقصد ایک ہے ، بے فائدہ کھیل تماشا اور وقت کاٹنا،اور یہ قیمتی وقت مفید کاموں میں استعمال کرنے کے لئے دیا گیا ہے نہ کہ کاٹنے اور گزارنے کی لئے ۔
5-الکٹرانک گیم :
یہ وضاحت آچکی ہے کہ کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں خلاف شریعت کوئی بات نہ ہو، اس سے کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ وابستہ ہو،اس میں اس درجہ انہماک نہ ہو کہ دوسری ذمہ داریاں پس پشت چلی جائیں اور ایک محدود اور مختصر وقت کے لئے کھیلا جائے ۔ارشاد ربانی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ۔
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ (سورہ لقمٰن :6)
علامہ علامہ آلوسی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘.
حضرت حسن بصری سے منقول قول کے مطابق "لھو الحدیث” ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر سے غافل کردے جیسے کہ قصے کہانیاں ، لطیفے ، چٹکلے ، خرافات اور گانا بجانا وغیرہ۔ (روح المعانی 11 / 66)
اور مفتی محمد تقی صاحب عثمانی لکھتے ہیں:
…نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پرواہ کرے، ناجائز ہے ۔کھیل کود اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
موبائل اور کمپیوٹر گیمس میں اگر یہ شرطیں پائی جائیں تو وہ جائز ہیں اگر ان کے ذریعے دینی اور اخلاقی معیار کو بلند کیا جائے ،ایمان و یقین کی آبیاری ہو ،عقل کو غذا اور ذہنی افق کو وسعت ملے اور ذہانت و فطانت میں ترقی اور صلاحیت و لیاقت اور معلومات میں اضافہ ہو۔ سلیقہ مندی اور خود اعتمادی پیدا ہو ،سماجی اور اجتماعی زندگی کی عادت پڑے اور متوازن و معتدل زندگی گذارنے میں مددگار ہو۔
لیکن واقعہ کی دنیا میں ان شرطوں کا وجود بہت مشکل ہے اس لئے کہ ان کے بنانے والے عام طور پر غیر مسلم یا نام کے مسلمان ہوتے ہیں لہذا وہ نہایت عیاری یا غیر شعوری طور پر ایسی چیزیں اس میں پیوست کر دیتے ہیں جو اسلامی عقائد و تعلیمات کے خلاف ہوتی ہیں اور غیر محسوس انداز میں وہ چیزیں ہماری نفسیات و افکار کا حصہ بن جاتی ہیں اور دل و دماغ کو اس طرح سے جکڑ لیتی ہیں کہ ان سے چھٹکارا پانا مشکل ہوجاتا ہے ۔
غیر حقیقی اور مبالغہ آمیز اور خرافاتی قصے کہانیوں میں انسان اس درجہ محو ہوجاتا کہ دوسری چیزوں کی خبر نہیں رہتی اور وہ خیالی دنیا میں رہنے لگتا ہے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے ۔
مار دھاڑ اور قتل و غارتگری پر مشتمل ویڈیو گیم لوگوں کو اذیت پسند اور وحشی بنا رہے ہیں اور بطور خاص بچے اس سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں ۔ان کے ذہن و دماغ پر بڑے خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ان میں ان کھیلوں کے تعلق سے دیوانگی اور تعلیم وتربیت سے بیگانگی پیدا ہو رہی ہے،ان کے احساسات و جذبات پر کھیل اس درجہ مسلط ہوچکا ہے کہ اس کے بغیر چین نہیں بلکہ جوئے اور شراب کی طرح سے اس کی لت لگ چکی ہے جس کے نتیجے میں وہ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں یا تعلیم ترک کردیتے ہیں۔
اور کمپیوٹر اور موبائل پر طویل وقت گزارنے کی وجہ سے صحت و تندرستی کے مسائل پیدا ہورہے ہیں، جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکرین پر طویل وقت گزارنے کی وجہ سے بچے ذہنی طور پر اپاہج یا وہ مرگی کی بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں ۔
غرضیکہ موبائل اور کمپیوٹر گیمس میں قیمتی وقت کو ضائع کرنا اور ایک لایعنی اور بے مقصد کھیل ہےاور اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہے اس لئے اس سے احتراز ضروری ہے ۔
6-پتنگ بازی:
پتنگ بازی ایک ایسا کھیل ہے جس میں دین و دنیا کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ بہت سی خرابیوں پر مشتمل ہے، جس میں وقت ضائع کرنے کے سوا کوئی حاصل نہیں، نیز بے موقع مال کا ضائع کرنا بھی ہے جو فضول خرچی میں شامل ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا۔اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا۔
اور رشتہ دار کو اس کا حق دو ، اور مسکین اور مسافر کو (ان کا حق)۔ اور اپنے مال کو بےہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ ۔یقین جانو کہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔(سورہ الاسراء: 26۔27)
"قرآن کریم نے یہاں ” تبذیر “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عام طور سے تبذیر اور اسراف دونوں کا ترجمہ فضول خرچی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر جائز کام میں خرچ کیا جائے۔ لیکن ضرورت یا اعتدال سے زیادہ خرچ کیا جائے تو وہ اسراف ہے اور اگر مال کو ناجائز اور گناہ کے کام میں خرچ کیا جائے تو وہ تبذیر ہے اسی لیے یہاں ترجمہ ” بیہودہ کاموں میں مال اڑانے “ سے کیا گیا ہے”۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہےکہ اللہ تعالیٰ نے ۔۔۔مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔( صحیح بخاري: 2408.صحیح مسلم: 593. واللفظ له)
اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ مال ضائع کرنے سے ناراض ہوتے ہیں۔(وَيَسْخَطُ لَكُمْ : قِيلَ وَقَالَ ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ۔ الموطا:2833)
نیز پتنگ کاٹ کر دوسرے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے حالانکہ کسی کو نقصان پہنچانا ناجائز ہے اور چونکہ ہر ایک کی نیت اور کوشش دوسرے کی پتنگ کو کاٹنے کی ہوتی ہے لھذا کاٹنے والا اور جس کی پتنگ کٹی ہے دونوں گنہگار ہیں۔
7-پرخطر کھیل :
انسان اپنے جسم وجان کا مالک و مختار نہیں ہے کہ جو چاہے کرے، اس کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں، بلکہ وہ اس کے پاس ایک امانت ہے جس کی حفاظت فرض ہے اور اس میں کسی طرح کی خیانت حرام ہے۔
اس کے خالق ومالک نے اسے اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ اپنی جان کو جوکھم میں ڈالے اور اسے خطرات سے دوچار کرے ۔لھذا ایسا کوئی کھیل جس میں جان جانے یا جسم کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجانے کا یقین یا غالب امکان ہو وہ جائز نہیں ہے ۔فرمان باری ہے :
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ۔
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورہ البقرۃ : 195)
اور دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ۔
وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ عُدۡوَانًا وَّ ظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا۔
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔
اور جو شخص زیادتی اور ظلم کے طور پر ایسا کرے گا، تو ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے، اور یہ بات اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔ (سورہ النسآء: 29۔30)
یہاں تک کہ عبادت و طاعت میں بھی جان کھپانے کی ممانعت ہے،ایک صحابی ہمیشہ روزہ رکھتے اور رات بھر نماز پڑھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے منع کیا اور فرمایا:
” فَلَا تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ ؛ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا…
ایسا مت کرو ۔ کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو،رات میں نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو ؛کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے ۔تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے ،تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے ،اور تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے ۔ (صحیح بخاري: 1975.صحیح مسلم: 1159)
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان سے فرمایا: اگر تم ایسا کروگے تو تمہاری آنکھ دھنس جائے گی اور تمہارا جسم کمزور ہوجائے گا ۔
(إِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ الْعَيْنُ، وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ.صحیح بخاري 1979)
اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ خطرات سے بھرے کھیل میں اگر کسی کو مہارت ہو جس کی وجہ خطرے کا امکان کم اور سلامتی غالب ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے کہ نشانہ سادھنے اور اس سے بچنے کی مشق کرتے ہوئے کوئی کسی پر تیر چلائے اور دوسرا مہارت اور پھرتی کے سبب اس سے بچ جائے تو یہ درست ہے ۔اسی طرح سے سانپ پکڑنے میں کسی کو مہارت ہو تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ۔(وكذا يحل كل لعب خطر لحاذق تغلب سلامته كرمي لرام وصيد لحية ويحل التفرج عليهم حينئذ. الدر المختار 667/9)
لہذا اس طرح سے تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلانا جس میں ہلاکت کا زیادہ امکان ہو جائز نہیں ہے ۔اسی طرح سے گاڑیوں کے ریس میں حصہ لینا درست نہیں ہے ۔نیز کوہ پیمائی کرنا اور پہاڑوں کی چوٹیوں اور بلند عمارتوں پر چڑھنا جس میں پھسل کر گرنے اور جان کی بازی ہار جانے کا غالب امکان ہو تو جائز نہیں ہے ۔
نیز یہ کہ اس طرح کے پر خطر کھیلوں کا کوئی جائز مقصد نہیں ہے نہ تو خود اس کا کوئی فائدہ ہے اور نہ سماج کی کوئی منفعت اس سے وابستہ ہے ، نہ تو کوئی معاشی افادیت ہے اور نہ ملت و قوم کی کوئی ضرورت پوری ہوتی ہے اور نہ کسی مصلحت کا تقاضا ہے ۔بس خود نمائی اور شہرت طلبی کے جذبے کی تسکین مقصود ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے خود کو ہلاکت میں ڈالنا حماقت بھی ہے اور معصیت بھی ۔
8-بچے اور بچیوں کے کھیل :
کھیل کود سے دلچسپی بچوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔اور یہ ان کی طبعی ضرورت بھی ہے کہ ہم جولیوں اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے سے ان کی نشو و نما میں مدد ملتی ہے ، ذہنی صلاحیت پروان چڑھتی ہے، سماجی اور خاندانی زندگی گزارنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور خانگی زندگی کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔
رحمت عالم ﷺ عہد طفولت میں اس دور کے رائج اور جائز کھیلوں میں حصہ لیا کرتے تھے چنانچہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَهُ، فَصَرَعَهُ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ…
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے جب کہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے انہوں نے آپ ﷺ کو لٹایا اور آپ کا سینہ چاک کیا۔
(مسلم: 162.مسند احمد 12221)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسین بن علی راستے میں کھیل رہے تھے،ایک دعوت میں تشریف لے جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا اور گود میں اٹھا لیا۔
(فَإِذَا حُسَيْنٌ يَلْعَبُ فِي السِّكَّةِ، قَالَ : فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَ الْقَوْمِ، وَبَسَطَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَفِرُّ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، وَيُضَاحِكُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهُ، فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ تَحْتَ ذَقَنِهِ، وَالْأُخْرَى فِي فَأْسِ رَأْسِهِ ، فَقَبَّلَهُ، وَقَالَ : ” حُسَيْنٌ مِنِّي، وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا .ابن ماجه :144.احمد: 17561)۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، قَالَ : فَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَبَعَثَنِي إِلَى حَاجَةٍ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، اس وقت میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اپ نے ہمیں سلام کیا اور اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجا۔ (صحیح مسلم 2482)
حضرت انس کی عمر دس سال تھی جب ان کی والدہ نے انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر مامور کیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا، راستے میں بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا تو میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوگیا اور جو کام آپ نے کہا تھا وہ بھول گیا ،کچھ دیر کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور پیچھے سے میری گردن پکڑی اور فرمایا :انس! جو کام میں نے کہا تھا وہ ہو گیا؟ میں نے دیکھا آپ کے چہرے پر خفگی کے آثار نہیں بلکہ مسکراہٹ بکھری ہوئی ہے ۔ عرض کیا: جی ہاں. اب جا رہا ہوں.
(فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي. قَالَ : فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَ : ” يَا أُنَيْسُ، أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ ؟ ” قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ، أَنَا أَذْهَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.صحیح مسلم: 2310).
حدیث گزر چکی ہے کہ حضرت انس کے بھائی ابو عمیر نغیر نامی پرندے سے کھیلا کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ اس پرندے کے مرنے کے بعد ان سے مزاح فرمایا کرتے تھے۔(صحیح بخاري:6129)
اور عقبہ بن حارث کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ دنوں کے بعد میں حضرت ابوبکر صدیق کی معیت میں کہیں جارہا تھا، حضرت علی بھی ان کے ساتھ چل رہے تھے، وہ حسن بن علی کے پاس سے گزرے جو بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول تھے ، انہوں نے ان کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور کہنے لگے تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہو حضرت علی کے مشابہ نہیں ، یہ سن کر حضرت علی ہنسنے لگے ۔(بخاری:3542مسند احمد: 40 واللفظ لہ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی رخصتی کے پس منظر میں کہتی ہیں :
فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ، وَمَعِي صَوَاحِبُ لِي، فَصَرَخَتْ بِي، فَأَتَيْتُهَا۔۔۔
میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں، اس وقت میں جھولا جھول رہی تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں تھیں ۔انھوں نے مجھے پکارا، میں ان کے پاس گئی۔۔۔(صحیح بخاری : 3894۔ مسلم :1422)
اور وہ رخصتی کے بعد کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:
كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ، فَيَلْعَبْنَ مَعِي.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں گڑیوں سے کھیلتی تھی، میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے تو وہ چھپ جاتیں اور آنحضرت ﷺ انہیں تلاش کرکے میرے پاس بھیجتے اور پھر وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔(صحیح بخاری: 6130. صحیح مسلم: 2440)
اور ربیع بنت معوذ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے صبح میں انصار کی آبادیوں میں پیغام بھیجا کہ جو کوئی کھا پی چکا ہے وہ بقیہ دن روزہ رکھے اور جس نے کھایا پیا نہیں ہے تو وہ روزہ کی نیت کرلے۔وہ کہتی ہیں کہ ہم اس کے بعد روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں اور ان کے لیے روئی کا کھلونا بنا دیتیں، جب ان میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا اسے کھلونا دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا ۔
( عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَتْ : أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الْأَنْصَارِ : ” مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلْيَصُمْ ". قَالَتْ : فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ.صحیح بخاری :1960 صحیح مسلم :1136)
اور قاضی خان کہتے ہیں:
اللعب الذي يلعب الصبیان ايام الصيف بالبطيخ بان يضرب بعضهم بعد مباح غير منكر.
بچوں کا گرمی کے دنوں میں تربوزے سے کھیلنا جائز ہے اور ناپسندیدہ نہیں ہے ۔اس طور پر کہ وہ تربوزے کو ایک دوسرے پر اچھالتے ہیں ۔(الهنديه354/5)
نیز وہ کہتے ہیں:
روي عن ابن عمر انه كان يشتري الجوز لصبيانه يوم العيد يلعبون بها وكان ياكل منه وهذا اذا لم يكن على وجه المقامره .
حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ وہ عید کے دن اپنے بچوں کھیلنے کے لئے اخروٹ خریدتے تھے اور اسے کھاتے بھی تھے ،لیکن یہ اس وقت ہے جب کہ جوئے کے طور پر نہ کھیلا جائے۔(الخانيه الهامش الهنديه 428/3)
امام غزالی کہتے ہیں:
مناسب ہے کہ مدرسے سے واپسی کے بعد بچوں کو اچھا کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے تاکہ مدرسے کی تھکن سے آرام پا سکیں لیکن اتنا نہیں کہ وہ کھیل کر تھک جائیں؛ کیونکہ بچوں کو کھیل سے منع کرنا اور ہر وقت تعلیم کے لیے اس پر مسلط رہنا اس کے دل کو مردہ کر دے گا اور اس کی ذہانت کند ہوجائے گی اور زندگی گزارنا اس کے لیے دشوار ہو جائے گا یہاں تک کہ پڑھائی سے بھاگنے کی تدبیر اختیار کرے گا. (احیاء علوم الدین 73/3)
اور علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ کمزور طبیعت کے لوگ جیسے کہ بچے اور عورتیں اگر بے فائدہ کھیل تماشہ چھوڑ دیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے بہتر میں مشغول نہ ہوں بلکہ اس سے بدتر میں مبتلا ہو جائیں.
(الاستقامہ 153/2)
نیز وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو کھیل کود میں وہ چھوٹ دی جا سکتی ہے جس کی گنجائش بڑوں کے لئے نہیں ہوتی ہے۔ (مجموع الفتاوی214/30)
9-گولیاں اور لٹو:
چھوٹے بچے آپس میں کانچ کی گولیاں کھیلتے ہیں، لٹو سے جی بہلاتے ہیں ، اگر ان کھیلوں میں ہار جیت ہو رہی ہو تو حرام اورناجائز ہیں، مفسر قرآن علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: حضرت مجاہد و عطاء کا خیال ہے کہ ہر قمار(جوا)’’میسر‘‘ میں داخل ہے، یہاں تک کہ بچے جو اخروٹ کھیلتے ہیں وہ بھی۔(تفسیر ابن کثیر 544/1)
فقہی اصول ہے کہ جو کام بڑوں کے لیے حرام ہے وہ بچوں کے لیے بھی درست نہیں اور ان کے عمل کے ذمہ دار والدین اور سرپرست ہوں گے، ان سے اس سلسلہ میں بازپرس ہوگی، اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اس قسم کے فضول کھیلوں سے دور رکھیں اور ایسے کھیلوں کی طرف رغبت دلائیں جن سے ان کے جسمانی نشوونما میں مدد مل سکے اور ان کی ذہنی و فکری تربیت کا ذریعہ ہو، بچوں کا ذہن بہت سادہ ہوتا ہے وہ ہر اچھی بری چیز کی طرف بڑی تیزی سے لپکتا ہے ، یہاں تک کہ آگ کے دہکتے ہوئے شعلے کی طرف بھی ، کیا ماں باپ اس کو گوارا کریں گے کہ ان کے دیکھتے ہوئے بچہ شعلہ کو ہاتھ میں لے لے؟ یقینا کوئی اسے برداشت نہیں کرسکتا، پھر آپ ان کے لیے ایسے کھیلوں کو کیونکر گوارا کرلیتے ہیں جو ان کے ذہن و دماغ کو جلاکر خاکستر کر دیتاہے، ایک معمولی کھیل ان کی ذہنی و جسمانی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے، یہ بچے خدا کی امانت ہیں، ان کی پرورش اسی احساس اور جذبہ کے تحت ہونی چاہیے ، اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی برتی گئی ، ان کو غلط راستے پر ڈالا گیا تو اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
علامہ آجری کہتے ہیں کہ بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کھیل حرام ہے ،جوا ہے تاکہ بلوغت کے بعد انہیں معلوم رہے کہ بڑوں نے اس کام سے منع کیا ہے اور بتایا ہے کہ حرام ہے ورنہ تو وہ بڑے ہو کر کہیں گے ہم تو یہ کھیل کھیلتے رہے لیکن کسی نے منع نہیں کیا، اگر ناجائز ہوتا تو لوگ اس سے منع کرتے ۔(تحریم النرد /90)
10-کھیل کود بطور پیشہ :
کھیل کود بذات خود مقصود نہیں ہے بلکہ بعض مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔اس لئے کھیل برائے کھیل اور اس میں انہماک اور غلو جائز نہیں ہے۔ اور کسی کھیل کو کسب معاش کا وسیلہ اور روزی روٹی کے حصول کا ذریعہ اور مستقل پیشہ بنانے کا مطلب ہے کہ کھیل کو مقصد بنالیا گیا ہے اور یہ اس میں حد درجہ انہماک کا تقاضا کرتا ہے اور یہ دونوں چیزیں ممنوع ہیں، لہذا اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے ۔چنانچہ علامہ شامی کہتے ہیں:
جہاد کے لیے قدرت و طاقت کے حصول کے مقصد سے کشتی کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے نہ کہ محض کھیل تماشا کے طور پر؛ کیونکہ یہ مکروہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہی بات گھوڑے کو سدھانے میں اور تیر اندازی کرنے میں بھی کہی جائے گی۔۔
نیز وہ کہتے ہیں:
اگر مقصد کھیل یا فخر یا بہادری دکھانا ہو تو ظاہر ہے کہ یہ چیزیں مکروہ ہیں اس لیے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے تو جس طرح سے کوئی مباح چیز نیت کی وجہ سے طاعت بن جاتی ہے اسی طرح سے طاعت نیت کی وجہ سے معصیت بن جاتی ہے۔(رد المحتار 651/9- 664)
اور امام غزالی کہتے ہیں:
اللعب مباح لكن المواظبة عليه مذمومة۔
کھیل کود جائز ہے لیکن اس میں لگے رہنا قابل مذمت ہے۔(احیاء علوم الدین128/3)
اور علامہ ابن قیم کہتے ہیں:
حکمت کا تقاضا ہے کہ کھیل کود کی گنجائش رکھی جائے اس لیے کہ اس میں جسم وجان کو آرام اور راحت پہنچانا ہے اورحکمت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس میں عوض حرام ہو کیونکہ اگر عوض کے ساتھ جائز قرار دیا جائے تو لوگ اسی کو پیشہ اور کمائی کا ذریعہ بنا لیں گےاور اس کی وجہ سے دین اور دنیا کی بہت سی مصلحتوں سے غافل ہو جائیں گے۔ اور اگر محض کھیل کی حد تک محدود ہو اور اس میں کسی طرح کی کمائی نہ ہو تو عام طور پر لوگ اسے دنیاوی اور دینی مصلحت پر ترجیح نہیں دیں گے اور صرف وہی لوگ اسے ترجیح دیں گے جو پیدائشی طور پر نکمے ہیں۔(الفروسية /172)
11- کھیل دیکھنا:
وہ کھیل اور تماشا جو اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں اس کا دیکھنا بھی جائز نہیں ، یہاں تک کہ ایسے کھیل کود کی آواز سننا بھی مکروہ ہے۔(البحر الرائق 207/8)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ.
اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (سورہ المؤمنون : 3)
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
:”خود تو لہو و لعب میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اگرکوئی اور شخص مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔(فتاویٰ مفتی محمود،کتاب الحظر و الاباحہ ، 11/295، جمعیۃ پبلیکیشنز)
لہذا ناجائز اور بے فائدہ کھیل و تماشا دیکھنا مکروہ تحریمی ہے ، خاص کر کراہت اس وقت اور دو چند ہوجاتی ہے جبکہ ستر پوشی کا کوئی اہتمام نہ ہو۔ اور دیکھنے میں مشغول ہوکر نماز و دیگر واجبات سے غافل ہوجائے، اسی طرح ریڈیو پر ایسے کھیلوں کو کو سننا مکروہ ہے۔
البتہ مباح کھیل دیکھنا درست ہے حدیث گزر چکی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حبشیوں کے کھیل کو دیکھا اور حضرت عائشہ صدیقہ کو دکھایا ۔
جوشخص ناجائز کھیلوں میں مشغول ہو امام ابویوسف کے یہاں اسے سلام کرنا مکروہ ہے، امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ سلام کرنا جائز ہے کیونکہ جتنی دیر میں وہ سلام کا جواب دے گا ، کم از کم اتنی دیر تک تو وہ گناہوں سے محفوظ رہے گا۔(بدائع الصنائع 127/5)
12-کھیل جیتنے کی خوشی میں سجدہ شکر:
کسی جائز مقصد کی حصولیابی یا کسی نعمت یا خوش کن چیز کے ملنے یا مصیبت کے ٹل جانے پر سجدہ شکر کیا جاسکتا ہے ۔اس لئے اگر کوئی مسلمان کھلاڑی جائز کھیل میں اپنی کامیابی پر گراؤنڈ میں سجدہ ریز ہے تو نہ صرف یہ جائز ہے بلکہ ایک پسندیدہ عمل ہے ۔
شکرانہ کے لئے افضل اور بہتر طریقہ ہے کہ دورکعت نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت بطور شکریہ پڑھی ۔(اعلاء السنن 232/7 ‘ حاشیہ طحطاوی 359) لیکن سجدہ تلاوت کی طرح صرف ایک سجدہ بھی کرلیا جائے جب بھی سنت ادا ہوجائے گی۔ (الدرالمختار 577/1 ‘ تاتار خانیہ 791/1)
حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے :
ان النبی ﷺ کان اذا اتاہ امر یسرہ او بشر بہ خر ساجداً شکرا للہ۔
جب نبی کریم ﷺ کوکوئی خوش کن واقعہ پیش آتا تو آپ شکرگذاری کے لئے سجدہ میں گر پڑتے۔(رواہ الخسمہ الا النسائی ۔نیل الاوطار 105/3)
متعدد صحابہ کرام سے بھی سجدہ شکر کرنا ثابت ہے ۔ مثلاً حضرت ابوبکر کو جب فتح یمامہ کی خبر پہونچی تو آپؐ سجدہ میں گر پڑے‘ حضرت علیؓ نے ایک خارجی کے قتل پر سجدہ شکر ادا کیا۔( نیل الاوطار 106/3، المحلی 332/3)
سجدہ شکر کا طریقہ :
پاک و صاف اور باوضو قبلہ رو ہوکر تکبیر کہتے ہوئے سجدہ میں چلا جائے، حمد و تسبیح اور شکر بجالانے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر سجدہ سے سر اٹھالے۔(مراقی الفلاح . 332) تکبیر کہتے ہوئے نہ ہی ہاتھ اٹھایا جائے گا اور نہ اس میں تشہد اور سلام ہے۔(الدرالمختار 567/1)