بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(41)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n. 9451924242

41-کینڈل مارچ:

اپنے حقوق کے حصول، اسلامی شعائر اور ارکان کی حفاظت اور دفاع اور ملی مفادات کے تحفظ کے لیے احتجاج ناگزیر ہو جائے تو ایسی صورت میں احتجاج کرنا جائز ہے، کہ مظلوم کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور صاحب حق کو اپنے حق کی وصولی کے لئے سخت سست کہنے کی اجازت ہے۔ حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے:
أَتى النبيَّ ﷺ رَجُلٌ يَتَقاضاهُ، فأغْلَظَ له، فَهَمَّ به أصْحابُهُ، فَقالَ: دَعُوهُ فإنَّ لِصاحِبِ الحَقِّ مَقالًا.
نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے قرض کا تقاضا کرنے آیا اور آپ کے خلاف سخت باتیں کہیں ،صحابہ کرام نے چاہا کہ اسے اس کا بدلہ دیں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: چھوڑ دو ۔حق والے کو کچھ کہنے کی گنجائش ہے ۔ (صحيح بخاري:2390 صحیح مسلم:1601) بشرطیکہ جائز حد سے تجاوز نہ کرے اور ظلم کے دفاع میں خود و ظلم وزیادتی کا ارتکاب نہ کرے اور اس میں دوسرے منکرات و مفاسد نہ ہوں مثلاً کسی کو پریشان نہ کیا جائے، لوگوں کی جان اور مال کو نقصان نہ پہنچایا جائے ،کسی کی کردارکشی اور آبروریزی نہ کی جائے، مرد وزن کا باہمی اختلاط نہ ہو رقص وسرود، اور بہتان تراشی نہ ہو ،غلط خبریں اور افواہیں نہ پہیلائی جائیں۔
اور اسلام میں احتجاج کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے اس لئے کوئی بھی جائز طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے مثلاً دھرنا دینا‌،مارچ کرنا اور ہڑتال کرنا وغیرہ
البتہ شرط یہ ہے کہ احتجاج کا سبب بھی جائز ہو اور طریقہ کار درست ہو
پرامن احتجاج کا ایک مؤثر طریقہ کینڈل مارچ ہے جس میں لوگ ہاتھوں میں شمع لے کر مظاہرہ کرتے ہیں،اور ظاہر ہے کہ اس کا کسی مذھب اور تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مفید وسائل و ذرائع کسی قوم کی شناخت نہ ہوں تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ اس طریقے کو اسی وقت اختیار کرنا چاہئے جب کہ احتجاج کے دوسرے طریقے کارگر نہ ہوں کہ بلاوجہ اگربتی جلا کر ضائع کرنا درست نہیں ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے